• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ڈس آنرچیک پر چارجز وصول کرنے کا مسئلہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

چیک کے ڈس آنر ہونے پر چارجز وصول کرنا

مارکیٹوں میں اگر کسی خریدار کا چیک بروقت کیش نہ ہو تو اس پر خریدارسے بعض دکانداراضافی چارجز وصول کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ کا چیک ہم نے اپنے اکاؤنٹ میں ڈالا تھا، تو ڈس آنر ہونے کی وجہ سے ہمیں بینک کی طرف چارجز پڑگئے ہیں۔لہذاآپ وہ چارجزدے دیں۔

جبکہ صورتحال یہ ہے کہ چیک ڈس آنر چارجز اب سے پہلےمتعددبینک لیا کرتے تھے، اور ان کی مقدار بھی مختلف تھی، کوئی بینک 50 روپے لیتا تھا، اور کوئی 300 روپے، کوئی 500 روپے۔

لیکن فی الحال یہ چارجز متعدد بینک نہیں لیتے۔ جس دور میں تقریباً ہر بینک چارجز لیتا تھا۔ اس دور میں دکاندارسے ہر خریدارسے اس کاچیک ڈس آنر ہونے پر چارجز لیا کرتا تھا (اگرچہ فی الواقع اس دکاندارکو کسی خاص وجہ سے بینک سے استثناء  ہی کیوں نہ حاصل ہو، جس کی بناءپر اسےیہ چارجز نہ پڑتے ہوں)۔ دکاندار یہ سوچ کر چارجز وصول کر کے اپنے پاس رکھتا تھا کہ ان خریداروں نے تماشہ بنایا ہوا ہے۔ ہمیں بوگس چیک پکڑا دیتے ہیں۔ تو ہم بینکوں کے چکر لگاتے رہتےہیں، اور ان خریداروں کی منت سماجت کرتے رہتےہیں۔پہلے جب تقریباً ہر بینک چارجز لیتا تھا توخریدارخاموشی سے چارجز ادا کر دیتا تھا۔کیونکہ اسے قطعی طورسےمعلوم نہیں ہوتاتھا کہ آیااس دکاندارکو بینک سےاستثناءحاصل ہےیا نہیں۔لیکن اب چونکہ متعدد بینک یہ چارجز چھوڑ چکے ہیں، مگر مارکیٹ کے بعض بڑے دکاندار جن کا زیادہ تر کام چیکوں کے ذریعہ ہوتا ہےاب بھی یہ چارجز وصول کرتے ہیں۔ اور اگرانہیں کوئی سمجھائے توآگے سےوجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہم یہ چیک ٹیکسکی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے اکاؤنٹوں میں نہیں ڈال سکتے بلکہ کراچی کے بڑے دکانداروں کے اکاؤنٹ میں ڈالتے ہیں پھرجب چیک ڈس آنرہوتاہےتوواپس ہمیں نہیں ملتابلکہ کراچی جاتا ہے اورجس کے اکاؤنٹ میں پیسے منتقل کرنے کےلیےڈالاتھا صرف اسی کوواپس ملتاہے،توچیک ڈس آنر ہونے کے بعدہم اسے وہاں سے واپس منگواتے ہیں (حالانکہ ڈاک کا خرچہ انہیں نہیں پڑتابلکہ کراچی والے تاجرکوپڑتاہے) مکمل حساب کتاب رکھتے ہیں کہ کونساچیک کس کاہے۔کراچی مارکیٹ کادستورہے کہ ڈس آنرہونے والے چیک کی جگہ دوسرے پیسے اپنے پاس سے فوراً جمع کروانے پڑتے ہیں۔جبکہ جس کاچیک ڈس آنرہوتاہے وہ ہمیں کئی دنوں بعد پیسے دیتاہے غرضیکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم چیک ڈس آنر ہونے کی وجہ سے بہت ڈسٹرب ہوتے ہیں۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ان بڑے دکانداروں کا یہ چارجز وصول کرنا شرعاً درست ہے؟

نوٹ: ایک دکاندار کا کہنا ہے کہ ہمیں فتویٰ لا دو، ہم چارجزلینا چھوڑ دیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مقررہ میعاد پر پیسے ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا اور بوگس چیک دینا ظلم اور زیادتی ہے اورکسی کے ساتھ ظلم و زیادتی شریعت میں ناجائز اور حرام ہے،لہذا خریدارکےذمے ہےکہ طے شدہ بینک اکاؤنٹ میں پیسوں کا مکمل بندوبست رکھے تاکہ دکاندار کو بار بار بینکوں میں آنا جانا اور لائن میں لگنا نہ پڑے،تاہم ظلم و زیادتی کرنے والے کی جانب سے جو بدنی زحمت یاذہنی کوفت اٹھانی پڑے تودنیا میں اس کا بدلہ مالی جرمانے کی شکل میں لینا جائز نہیں،لہذا جس دوکاندار کو چیک ڈس آنر ہونے کی وجہ سے بینک کو کوئی چارجز نہیں دینے پڑتے یا کسی اور جگہ کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑتا ان کے لئے چیک ڈس آنر ہونے کی صورت میں چارجز یا کوئی اور خرچہ لینا جائز نہیں، البتہ جس دکاندار کو چیک ڈس آنر ہونے کی وجہ سے بینک کو چارجز دینے پڑے ہوں یا کسی اور جگہ خرچہ کرناپڑاہوتو صرف  بینک چارجز کے بقدریادیگر خرچ کے بقدر خرچہ لیا جاسکتا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved