• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والد کے ساتھ سلوک

  • فتوی نمبر: 5-80
  • تاریخ: 08 اپریل 2012

استفتاء

عرض ہے کہ مجھے دنیاوی زندگی میں کچھ مسائل کا سامنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ دین میں ان مسائل کا کوئی شرعی حل موجود ہے مگر دینی علم نہ ہونے کے باعث حاضر ہوا میرے مسائل درج ذیل ہیں:

میرے والد امجد علی جو کہ دنیاوی اعتبار سےبہت  سمجھدار انسان سمجھے جاتے ہیں ان کا کردار کچھ ٹھیک نہیں۔ بیس سال پہلے میری والدہ نے غیر عورت کے گھر سے انکو  رنگے ہاتھوں پکڑا مگر اپنی اولاد کی وجہ سے قربانی دی اور سب برداشت کیا۔ وقتی طور پر میرے والد بظاہر ٹھیک ہوگئے مگر اب پھر سے ان کی وہ حرکات کا شبہ یقین کی حد تک بدل چکا ہے جیسا کہ والد کے شاگرد نے ان کو کسی غیر عورت کے گھر دیکھا اور ہم سے ذکر کیا۔ میری والدہ اسی صدمے سے پریشان ہے اور ہم بہن بھائی بھی پریشان ہے میرا تو ان کو بلانے کو دل نہیں کرتا یہی حال باقی بہن بھائیوں کا ہے مگر وہ ہمارے والد ہیں اور اس لیے میں نہیں چاہتا ہم گناہ گار ہوں میں جاننا چاہتا ہوں ایسے حالات میں میری والدہ  کے لیے کیا شرعی تجویز ہے اور ہم بہن بھائیوں کے لیے کیا تجویز ہے؟ اور ہم کو کیا کرنا چاہیے کاروبار میں اور گھر میں کوئی شرکت نہیں۔ میری والدہ علیحدگی نہیں چاہتی بس میں جانناچاہتا ہوںہم سب کا ان کے اس قدم میں برتاؤ کیسا رکھیں ان کے ساتھ مثلاً ہمارا ان کو بلانے کا دل نہیں کرتا، کھانا پوچھنے کو دل نہیں کرتا جتنا کہ ان کو پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی بات ہوجائے تو بدتمیزی پر بھی اتر آئیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ سارا معاملہ خاندان کے کسی معزز فرد یا اپنے والد کے کسی ایسے دوست سے ذکر کریں جن کی بات کو وہ رد نہ کرتے ہوں۔ اور وہ انہیں سمجھائیں۔

کسی برائی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے والد کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ ان کے لیے ہدایت کی دعا کریں او ر صبر کریں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved