• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا ماں اور بیٹی کی رضامندی نکاح کے لیے کافی ہے؟

استفتاء

1۔میں مسمی **** ایک لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتاہوں ۔ جس کے والدین کے درمیان علیحدگی ہوچکی ہے۔ اورا س نکاح میں لڑکی کی والدہ اور لڑکی رضامند ہیں۔ اور ان کے علاوہ ان کا کوئی رشتہ دار(محرم) رضامند نہیں ہے۔ اس صورت حال میں نکاح کے موقعہ پر ولی (سرپرست)،گواہ، اور وکیل کے فرائض کو ن ادا کرسکتاہے ۔  یا صرف ماں اور بیٹی کی رضامندی پر نکاح ہوسکتاہے ؟

2۔موجل اور غیر موجل حق مہر میں کیا فرق ہے ؟ اور کیا لڑکی اپنا حق مہر معاف کرسکتی ہے ؟ اگر کرسکتی ہے تو کیسے؟زبانی یا تحریری۔

نوٹ: لڑکی والدہ کے ساتھ الگ مکان میں رہتی ہیں۔ والد کے ساتھ رابطہ تو ہے لیکن والد سرپرستی  نہیں کررہے۔

وضاحت مطلوب ہے:1۔ کیا آپ  کے والدین  اور خاندان والے لوگ اس رشتہ پر راضی ہیں؟

2۔لڑکی کے رشتہ دار کیوں راضی نہیں ہیں؟

جواب وضاحت: 1۔لڑکے کے والدین اور خاندان والے بھی اس رشتے سے راضی نہیں اور شریک نہیں ہونگے۔

2۔لڑکی کے والد اور ددھیال کا تین سال پہلے ہی لڑکی کے والدہ کے ساتھ (مکان بیچنے کے معاملے میں )تعلق ختم ہوگیا تھا لہذا ان کی رضامندی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔لڑکی کے ماموں وغیرہ اس وجہ سے راضی نہیں کہ ہمارے رشتے کی کچھ بات چلی تھی وہ ہمارے گھر رشتہ کے سلسلے میں آئے تھے توان کے ساتھ والدین کی کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی ۔ جس میں  میر ے والد نے ان کی بے عزتی بھی کی۔ اس لیے  ان کا کہنا ہے جہاں ہمارے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہو اور ہماری  بے عزتی کی گئی ہو ۔ تو ہم وہاں یہ رشتہ کیسے دے سکتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر نکاح کریں گے تو اگرچہ نکاح ہوجائےگا۔ لیکن  بہتر یہ ہے کہ یا تو کم ازکم لڑکی کے ماموں سے صلح کرلیں یا  پھر یہ رشتہ ہی نہ کریں۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved