- فتوی نمبر: 4-24
- تاریخ: 16 مئی 2011
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
*** کا رشتہ ان کے والد ***د نے ایک لڑکے بکر سے کیا۔ لیکن یہ رشتہ زبانی معاہدہ تھا اور معاہدہ کر کے نکاح کا وقت متعین ہوا اور اسی معاہدہ زبانی پر گواہ بھی موجود ہیں، لیکن نکاح کرنے سے پہلے لڑکی کے والد وفات پاگئے اور باقاعدہ نکاح لڑکی کے چچا نے کرایا ہے۔ کچھ عرصہ بعد وہ لڑکی کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ فرار ہوگئی، تو اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ لڑکی کا باقاعدہ نکاح چچا نے کرایا ہے لہذا لڑکی کے عدم رضا کی وجہ سے سابقہ نکاح کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور لڑکی کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہے۔ نیز والد کے معاہدہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جبکہ علاقہ کا عرف اسی معاہدہ کا مقتضی ہے اسی معاہدہ کو نکاح تصور کیا جاتا ہے۔
مسئلہ مذکورہ کی پوری تفصیل فقہ حنفی کی روشنی میں مطلوب ہے۔
تنقیح: لڑکی کا جب نکاح کیا تو وہ نابالغ تھی اور بڑا بھائی، دادابھی نہیں ہے، نیز رخصتی سے قبل ہی بلوغ کے بعد لڑکی فرار ہوگئی ہے اور زبان سے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے معلوم ہو کہ وہ سابقہ نکاح پر راضی نہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چچا نے جو نکاح کیا تھا وہ لازم نہ تھا یعنی لڑکی کو اختیار تھا کہ بالغ ہونے کے بعد اس نکاح کو فسخ کرالے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ کہ بالغ ہوتے ہی زبان سے یہ کہے ” کہ میں اس نکاح پر راضی نہیں ” اور اس پر گواہ بھی بنالے۔ لیکن اس میں اگر ذرا بھی تاخیر ہوئی تو خیار بلوغ باطل ہو جائے گا۔ اور یہاں چونکہ لڑکی نے زبان سے عدم رضا کا اظہار بلوغ کے وقت نہین کیا اس لیےا س کو فسخ کا خیار نہیں رہا اور یہ نکاح لازم ہوگیا۔
و بطل خيار الباكر بالسكوت مختارة عالمة بأصل النكاح و لا يمتد إلى آخر المجلس ….. و تشهد قائلة بلغت الآن و إن جهلت به. و تحته في الشامية : قوله ( عالمة بأصل النكاح ) فلا يشترط علمها بثبوت الخيار لها أو أنه لا يمتد إلى آخر المجلس كما في شرح الملتقى ……. وقوله ( ولا يمتد إلى آخر المجلس ) أي مجلس بلوغها أو علمها بالنكاح …..فلو سكتت قليلاً بطل خيارها. (شامی: 4/ 177، 178 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved