- فتوی نمبر: 1-36
- تاریخ: 20 فروری 2006
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میری دو بیویاں تھیں جو کہ دونوں ہی فوت ہو چکی ہیں۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹی زندہ ہے جو کہ شادی شدہ ہے اور چھ بچوں کی ماں ہے۔ دوسری بیوی سے چار بیٹے ہیں جو کہ تمام زندہ ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں۔ اس گرمیوں میں میرے بیٹے کی منگنی پر نواسے نے گاڑی کا مطالبہ کیا تھا جو کہ پورا نہ ہوسکا جس وجہ سے بیٹی میری موجودہ جائیداد میں سے اپنا حصہ طلب کرتی ہے ۔ میں نے سورت نساء کا ترجمہ پڑھا ہے اس میں لفظ ترکہ ہے، ترکہ والا مفہوم میں سمجھ چکا ہوں۔ جبکہ والد اپنی حیاتی میں اپنی جائیداد بچوں میں کس طرح تقسیم کرسکتا ہے۔ یہی سوال میں نے لکھ کر بیت اللہ میں بھی پاکستانی عالم کو جو کہ وہاں پر مغرب اور عشاء کے تقریر بھی کرتے ہیں اور سوالوں کے جواب بھی ہماری زبان میں دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپ اپنی حیاتی میں بچوں کو جائیداد تقسیم کر کے نہ دیں۔ اس صورت میں وہ آپ کو کوئی بھی مدد نہیں کریں گے الٹا گھر سے بےدخل کر دیں گے۔ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ واپس جا کر دو یا تین علماء کرام سے فتویٰ لے کر باقاعدہ اسٹامپ پیپر وصیت تحریر کر دیں کہ میرے مرنے کے بعد باقی جائیداد بشرح شریعت تقسیم کر دیں فتویٰ کے مطابق بیٹی کو حصہ ادا کریں۔ آپ مہربانی فرما کر مجھے فتویٰ جاری کریں کہ میں اپنی بیٹی کو کس طرح جائیداد سے حصہ دے سکتا ہوں۔ جائیداد کی تفصیل یہ ہے : پلاٹ تین عدد، دکان ایک عدد، ایک گھر جس میں ہم رہ رہے ہیں، کچھ نقد رقم ہے۔ ایک عدد موٹر سائیکل۔ تادم تحریر بیٹوں کی طرف سے مجھے کوئی آمدنی نہیں ملتی ہے کیونکہ وہ بھی بیکار ہیں۔ میں بھی عرصہ تین سال سے گھر میں بیکار بیٹھا ہوا ہوں۔ یعنی ریٹائرمنٹ کی زندگی گذار رہا ہوں اپنی پنشن کی رقم بھی گنوا بیٹھا ہوں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سائل اگر اپنی زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ ایسی صورت میں اپنی ضرورت کے بقدر رکھ کر باقی جائیداد لڑکے لڑکیوں میں برابر تقسیم کر دے۔ اور اگر چاہے تو لڑکی کو ایک اور لڑکے کو دو حصے بھی دے سکتا ہے۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved