• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وصیت

استفتاء

دین اسلام یہ چاہتا ہے کہ والدین کے ذمہ اولاد کی صحیح دینی تربیت ہو۔ اولاد کے لیے کاروبار، محلات، دولت اکٹھی کر کے چھوڑ جائے۔ اس کی ترغیب نہیں ہے۔ مفتی حضرات یہ فرماتے ہیں کہ زندگی میں صاحب جائیداد اپنا مال جس طرح چاہیں خرچ کریں یا تقسیم کریں۔ ان کو مکمل اختیار ہے۔ پھر بھی اولاد کو صلہ رحمی کی نسبت سے مندرجہ ذیل وصیت کرتا ہوں۔

1: ***** گھر تبلیغی اور دینی کاموں کے لیے وقف کرتا ہوں۔ یہ لیز پر ہے اس کی زمین کی لاکھوں میں قیمت جب طے ہو جائے میرے ترکہ میں سے ادا کی جائیگی۔ ۔۔۔ وقف کچھ عرصہ قیام کرسکتا ہے۔ باقی رہنے والے اپنے بندوبست کریں گے۔

2: *****میں دو دکانیں ( سابقہ دکان اویس بھائی، سابقہ دکان ۔۔۔ والا) اور اس کے دو دفتر پہلی منزل **کو دے رہا ہوں۔ اس کی مالیت 40 لاکھ ہے۔ اور نقد دس لاکھ دے کر پچاس لاکھ ہر لڑکے کو دینا چاہتا ہوں۔ مگر دوسرے بھائیوں اور والدہ کی سفارش پر مندرجہ ذیل خصوصی رعایت ہوئی۔

اس وقت 15 لاکھ کا چک نمبر ۔۔۔ نقد اور جب میرے پاس رقم ہو جائے مزید 5 لاکھ دینا ہے۔ اور اس میں سے 2 لاکھ ادھار لیا ہوا ہے وصول کرنا ہے۔ دوسرا 30 ماہ کا ساری بلڈنگ کا کرایہ جو 30x 40000 = 12 لاکھ چھوڑ رہا ہوں۔

3: 2 عدد دکانیں نمبر1 – 2 جو کرایہ پر دی ہوئی ہیں۔ اور پہلی منزل کے بقایا 2، 3 کمرے اور دوسری ساری منزل اپنی بیگم شمیم اختر کو دے رہا ہوں۔ اوپر والی منزلیں عمار صاحب ان کا کرایہ 6 ہزار روپے ماہانہ طے کیا ہے۔ جو گھریلو اخراجات کی وجہ سے ابھی نہیں لیا جائے گا۔

4: سافٹ نٹ ٹیکسٹائل ملز میں میرا سرمایہ مندرجہ ذیل ہے:

نقد رقم:                         6356873

ادائیگی خادم صاحب             300000

پتی ادھار:                       2000000

30 ماہ لیز:                      1650000

کل سرمایہ:                      10306873

اس میں سے 50- 50 لاکھ***** کو دیتا ہوں۔ بقایا واجب الوصول ہے۔ اب آئندہ میرا *** کے کاروبار میں اور فیکٹری کے کاروبار میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

5: اپنی 3 لڑکیوں کو بھی 50 – 50 لاکھ دینا چاہتا ہوں۔ مفتی حضرات اور دینی دوست بھی مشورہ دیتے ہیں۔ مگر ابھی 20 – 20 لاکھ ادا دے کر ہر لڑکی کو 30 لاکھ کی ادائیگی آئندہ دوں گا۔ گلی کی جائیداد فروخت کر کے کوشش کروں گا۔

6: بقایا مکان دوں گا گلی۔ اور زمینیں میں اپنے لیے رکھ رہا ہوں۔

علماء کرام و مفتیان دین اس وصیت کے مطابق وراثت کی تقسیم کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جیسا کچھ اس تحریر میں لکھا ہے اگر مرحوم نے اپنی زندگی میں مذکورہ جائیداد پر موہوب لہ کا قبضہ کرا دیا تھا تو ہبہ و ہدیہ صحیح ہوا اور اگر کل یا بعض پر قبضہ نہیں کرایا تو غیر مقبوض ترکہ میں شامل ہے اور اس میں وراثت کے اصول جاری ہوں گے الا یہ کہ سب وارث والد کی خواہش پر راضی ہو جائیں۔

مکان جو وقف کیا ہے اس کے بارے میں مرحوم نے خود لکھا ہے کہ وہ لیز پر ہے۔ جب تک وہ لیز پر ہے اس کا وقف صحیح نہیں ہے۔ مرحوم کے وارث اس کو خرید کر والد کی خوشی کے لیے وقف کرنا چاہیں تو ان کی مرضی پر ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved