- فتوی نمبر: 1-83
- تاریخ: 16 مئی 2006
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وصیت کے احکام
استفتاء
دین اسلام یہ چاہتا ہے کہ والدین کے ذمہ اولاد کی صحیح دینی تربیت ہو۔ اولاد کے لیے کاروبار، محلات، دولت اکٹھی کر کے چھوڑ جائے۔ اس کی ترغیب نہیں ہے۔ مفتی حضرات یہ فرماتے ہیں کہ زندگی میں صاحب جائیداد اپنا مال جس طرح چاہیں خرچ کریں یا تقسیم کریں۔ ان کو مکمل اختیار ہے۔ پھر بھی اولاد کو صلہ رحمی کی نسبت سے مندرجہ ذیل وصیت کرتا ہوں۔
1۔ چوبرجی پارک کا گھر تبلیغی اور دینی کاموں کے لیے وقف کرتاہوں۔ یہ لیز پر ہے۔ اس کی زمین کی لاکھوں میں قیمت جب طے ہوجائے میرے ترکہ سے ادا کی جائے گی۔ ۔۔۔ وقف کچھ عرصہ قیام کر سکتا ہے۔ باقی رہنے والے اپنا بندوبست کر یں۔
2۔ 1279/H بلڈنگ ****منڈی میں دو دکانیں ( سابقہ دکان او(بیٹا نام)بھائی، سابقہ دکان میزردی والا ) اور اس کے ( اوپر دفتر پہلی منزل ع(بیٹا نام )کو دے رہا ہوں۔ اس کی مالیت 40 لاکھ ہے۔ اور نقد دس لاکھ دیکر پچاس لاکھ ہر لڑکے کو دینا چاہتاہوں۔ مگر دوسری بھائیوں اور والدہ کی سفارش پر مندرجہ ذیل خصوصی رعایت ہوئی۔
اس وقت 15 لاکھ چک نمبر۔۔۔۔۔۔۔ نقد اور جب میرے پاس رقم ہوجائے مزید 5 لاکھ دینا ہے۔ اور اس میں سے 2 لاکھ جو ادھار کیا ہوا ہے وصول کرنا ہے۔
دوسرا 30 ماہ کا ساری بلڈنگ کا کرایہ جو 30* 40000۔ 12 لاکھ چھوڑ رہا ہوں۔
3۔ دو عد 1279/H دوکانیں نمبر1، نمبر 2 جو کرایہ پر دی ہوئی ہیں اور پہلی منزل کے بقایا 2 ، 3 کمرے اور دوسری ساری منزل اپنی بیگم شم(بیوی نام)کو دے رہا ہوں۔ اور والی منزلیں ۔۔ انکا کرایہ 6 ہزار طے کیا ہے۔جو گھریلو اخراجات کی وجہ سے ابھی نہیں لیا جائے گا۔
4۔ **** ٹیکسٹائل ملز میں میرا سرمایہ مندرجہ ہے:
نقد رقم 6356873
ادائیگی خادم صاحب 300000
پتی ادھار 2000000
30 ماہ لیز۔۔۔ 1650000
کل سرمایہ 10306873
اس میں سے 50، 50 لاکھ او (بیٹا نام)اور ص ہ (بیٹا نام)کو دیتا ہوں۔ بقایا واجب الوصول ہے۔ اب آئندہ میر اکبری منڈی کے کاروبار میں اور فیکٹری کے کاروبار میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
5۔ اپنی 3 لڑکیوں کو بھی 50، 50 لاکھ دیتا ہوں، مفتی حضرات اور دینی دوست یہی مشورہ دیتے ہیں ، مگر ابھی 20 ، 20 لاکھ اور دیکر ہر لڑکی کو 30 لاکھ کی ادائیگی آئندہ دونگا گلی کی جائیداد فروخت کرکے کوشش کروں گا۔
6۔ بقایا مکان ڈونگا گلی اور زمین میں اپنے لیے رکھ رہا ہوں۔
علماء کرام و مفتیان دین اس وصیت کے مطابق وراثت کی تقسیم کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جیسا کچھ اس تحریر میں لکھا ہے اگر مرحوم نے اپنی زندگی میں مذکورہ جائیداد پر موہوب لہ کا قبضہ کرا دیا تھا تو ہبہ و ہدیہ صحیح ہوا اور اگر کل یا بعض پر قبضہ نہیں کرایا تو غیر مقبوض ترکہ میں شامل ہے اور اس میں وراثت کے اصول جاری ہوں گے الا یہ کہ سب وارث والد کی خواہش پر راضی ہو جائیں۔
مکان جو وقف کیا ہے اس کے بارے میں مرحوم نے خود لکھا ہے کہ وہ لیز پر ہے۔ جب تک وہ لیز پر ہے اس کا وقف صحیح نہیں ہے۔ مرحوم کے وارث اس کو خرید کر والد کی خوشی کے لیے وقف کرنا چاہیں تو ان کی مرضی پر ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved