- فتوی نمبر: 5-143
- تاریخ: 29 ستمبر 2012
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
نکاح کا طریقہ
نکاح سے پہلے ایک وکیل اور دو گواہ اس لڑکی کے پاس جائیں جس کا نکاح ہو رہا ہے اور وکیل یہ کہے کہ تمہارا نکاح فلاں شخص سے جو فلاں کا بیٹا ہے اتنے مہر پر کیا جا رہا ہے تم نے اجازت دی؟ جب لڑکی منظوری دیدے تو یہ وکیل اپنے گواہوں کو لے کر نکاح کی مجلس میں جائے اگر وکیل نکاح پڑھائے تو پہلے خطبہ پڑھے اس کے بعد دولہا سے کہے کہ فلاں عورت نے جو فلاں کی لڑکی ہے اتنے مہر پر آپ کے ساتھ نکاح کر دینے کا مجھے وکیل بنایا، میری وکالت کے گواہ فلاں فلاں شخص ہیں۔ آپ نے فلاں بنت فلاں کو اتنے مہر پر اپنے عقد میں قبول کیا ( مثلاً اس طرح کہے کہ محمد زبیر کی لڑکی شاکرہ خاتون نے دو سو روپیہ مہر ادھار یا نقد پر آپ کے ساتھ نکاح کر دینے کا مجھے وکیل کیا ( یعنی محمد***بن محمد *** کو ) میری وکالت کے گواہ محمد ع***او*** ہیں۔ آپ نے مسماة مذکورہ کو بعوض مہر مذکور اپنے عقد میں قبول کیا۔ اس کے بعد دولہا کہے کہ میں نے آپ کی مؤکلہ خاتون بنت م***کو بعوض دو سو روپیہ مہر پر اپنے عقد میں قبول کیا )۔ اگر وکیل خود نکاح نہ پڑھائے بلکہ نکاح خواں کوئی دوسرا شخص ہے تو وکیل مع اپنے دو گواہوں کے اس کے پاس جا کر یہ کہے کہ *** کی لڑکی شاکرہ خاتون نے دو سو روپیہ مہر پر ( مہر کی تشریح کر دے کہ ادھار ہے یا نقد ) آپ کے ساتھ نکاح کر دینے کا مجھے یعنی*** کو وکیل کیا، میری وکالت کے گواہ ***اور ***ہیں میں اجازت دیتا ہوں کہ آپ میری مؤکلہ کا نکاح عمادالدین بن***کے ساتھ دو سو روپیہ مہر پر کردیں۔ اس کے بعد نکاح خواہ دولہا سے کہے کہ شاکرہ خاتوں بنت *** کو بعوض مہر دو سو روپیہ اپنے نکاح میں قبول کیا؟ دولہا کہے میں نے قبول کیا۔
مہر کی تشریح ہر جگہ کر دینا چاہیے ادھار ہے یا نقد؟ نکاح ہوجانے کے بعد زوجین کے لیے سب حاضرین دعا کریں۔
تنبیہ: (۱ ) نکاح کے مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھ لینا چاہیں، یا کسی معتبر عالم سے دریافت کر لے۔
(۲)خطبہ پہلے پڑھے بعد میں ایجاب و قبول کرائے بعض جگہ رواج ہے کہ ایجاب وقبول کے بعد خطبہ پڑھتے ہیں یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ ( فضائل نکاح مولاناقاری صدیق احمد صاحب ۔۔۔ ص: 56 ، 57 )
سوال: نکاح کا مذکورہ طریقہ ٹھیک ہے؟ اگر ٹھیک ہے تو یہ مذکورہ طریقہ کس حد تک مطلوب ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
نکاح کا مذکورہ طریقہ ویسے تو ٹھیک ہے لیکن تکلف والا ہے اور شرعاً مطلوب بھی نہیں ہے۔ عام طور سے جوطریقہ رائج ہے وہ کافی ہے یعنی لڑکی کا ولی مثلاً اس کا باپ لڑکی سے نکاح کرنے کی اجازت لے لے۔ اس پر دو گواہ بنالے تو اچھا ہے ضروری نہیں۔ پھر وہ ولی نکاح خواہ کو نکاح پڑھانے کا کہہ دے۔ اس طریقے کا حاصل بھی وہی ہے جو کتاب میں مذکور طریقے کا ہے۔ فقط و اللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved