- فتوی نمبر: 5-311
- تاریخ: 20 مارچ 2013
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
محترم جناب میرا نام *** رسول ہے۔ میں ایک***نامی خاتون کو پسند کرتا تھا۔ ہم دونوں میں جان پہنچان تھی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور شادی کے خواہش مند تھے۔ میں نے اپنے گھر والوں کو لڑکی کے گھر رشتے کے لیے بھیجا لڑکی کی اجازت بلکہ اس کے اصرار کرنے پر۔ میرے گھر والے گئے بات ہوئی۔***کی والدہ نے مجھے دیکھنے مجھے ملنے دوبئی آئیں۔ بقول **** کے میں اس کی والدہ کو پسند آیا ہوں۔ لیکن حتمی فیصلہ بھائی کے ملنے کے بعد ہوگا۔ کچھ عرصہ **** کی والدہ اور بھائی جاپان سے واپسی پر دوبئی مجھ سے ملے۔ بات چیت ہوئی **** کے بھائی نے منع کردیا کہ لڑکا ٹھیک نہیں، کم پڑھا لکھا ہے اور روز گار بھی صحیح نہیں ہے جبکہ میں اپنا ذاتی کاروبار چلا رہا تھا دوبئی میں۔ مختصر یہ ہے کہ انکار ہوا۔ اب میں اور **** محبت کا دعوی کرتے تھے سوچا خود سے نکاح کر لیتے ہیں۔ کچھ عرصے تک گھر والوں کو بتا دیں گے۔ ہم نے 2001- 12- 29 کو نکاح کیا۔ گواہوں اور وکیل کے سامنے۔ یہ نکاح باہمی رضامندی سے ہوا۔ کوئی زبردستی نہیں تھی۔ کچھ عرصے بعد شرعی لحاظ سے صحبت ہوئی۔ نکاح کے کچھ عرصے بعد **** کے گھر والوں کو پتہ چلا **** ہی سے کہ **** نے نکاح کرلیا ہے۔ اب **** کے گھر والے **** کے اس نکاح کو ماننے سے انکاری ہیں۔ اور **** کے انکاری ہونے کی وجہ اس کی والدہ اور بھائی کا دباؤ ہے۔ **** نے مجھ سے طلاق کا تقاضا شروع کیا۔ میں نے طلاق نہیں دی نہ دینا چاہتا ہوں۔ صرف اور صرف خوف خدا کی وجہ سے جبکہ مجھ پر الزام دیا گیا ہے کہ مجھے ان کی دولت سے غرض ہے۔ نکاح سے انکار اس وجہ سے کیا جارہا ہے کہ (لا نكاح إلا بولي) یعنی اس نکاح میں ولی شامل نہ تھا لہذا نکاح نہیں ہوا۔ اس نکاح میں ولی کی اجازت شامل نہیں تھی لہذا یہ نکاح جائز نہیں فاسد ہے۔ **** عالم میری شرعی اعتبار سے بیوی ہے یا نہیں؟
اس کے بعد بھی مجھ سے طلاق کا تقاضا جاری رہا۔ میری نظر میں میرا نکاح جائز ہے۔ اس لیے میں نے طلاق نہیں دی اور دینے سے انکاری ہوں۔ ایک دفعہ بہت دباؤ اور اصرار پر میں نے یہ الفاظ کہہ وہ بھی یہ بات سننے کے بعد کہ مجھے طلاق دے دو میری ماں مر جائے گی، تم نہ دو گے تو میں کورٹ میں جاکر لے لوں گی۔ اس بات کے بعد میں نے یہ الفاظ استعمال کیے کہ ’’ میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا چاہے تم کورٹ میں جاؤ یا مجھے مار دو، میں اپنے منہ سے خود طلاق کبھی نہیں دوں گا۔ اب تم چاہو تو اپنی مرضی کرنے میں آزاد ہو لیکن میں طلاق نہیں دوں گا، تم چاہتی ہو کہ نکاح نہیں، تو وہ تمہاری مرضی تم اپنی کرنے میں آزاد ہو لیکن میں طلاق کبھی نہیں دوں گا۔ ‘‘ برائے کرم فرمائیں کہ میری طلاق ہوئی یا نہیں؟
پھر اس بات کے بعد یہ بات ہوئی کہ اگر طلاق نہیں دی تو مجھے تم سے مانگنے کی ضرورت نہیں۔ میرے ولی کے پاس اختیار ہے اس نکاح کو ختم کرنے کا فاسد قرار دینے کا۔ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں کہ ایسا ممکن ہے کہ شرعی رو سے بغیر ولی نکاح کو ختم کرسکتا ہے یا فاسد قرار دے سکتا ہے۔ آخر میں ایک بات وہ یہ کہ مجھے یہ کہا گیا کہ میں کفو نہیں کسی بھی لحاظ سے چونکہ میں جٹ خاندان سے ہوں اور **** علوی خاندان سے ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ علوی خاندان سید ہیں۔ اس لحاظ سے میں ان کا کفو نہیں۔ برائے کرم اصلاح فرمائیں کہ میرا کفو ہے نہیں؟ کیا یہ فرق ہمارے نبی کریم ﷺ نے بھی رکھا؟ کیا اس کفو کی وجہ سے میرا نکاح ناجائز ہوگیا؟ کیا **** میری بیوی تصور ہوگی یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
عجمی شخص جٹ، مغل ہو یا پٹھان کسی علوی (قریشی) لڑکی کا کفو نہیں ہوتا۔ اور لڑکی کے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرلینے سے شرعاً نکاح نہیں ہوتا۔
و الموالي و هم غير العرب لا يكونون أكفاء للعرب و الموالي بعضهم أكفاء بعض. ( عالمگیری: 1/ 290)
و له أي للولي … الاعتراض في غير الكفؤ فيفسخه القاضی … و يفتى في غير الكفؤ بعدم جوازه أصلاً و هو المختار للفتوى لفساد الزمان. (شامی: 2/ 322) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved