• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حصے دینے میں وقت ادائیگی کی قیمت کا اعتبار ہے

استفتاء

میرے والد محترم نے ترکہ میں ایک گھر چھوڑا ہے جو کہ میری والدہ اور والد دونوں کے نام ہے اس کا کل رقبہ دس مرلے ہے، ہم چار بہن بھائی، دو بیٹیاں بڑی اور دو بیٹےہم بہنوں سے چھوٹے ہیں، میرے چھوٹے بھائی نے والد صاحب کے گھر کا سودا 2004 میں مبلغ ستائیس لاکھ پچاس ہزار میں طے کردیا تھا۔ اس سودا کی دیگر رشتہ داروں کو خبر ملی تو انہوں نے بھائی کو بتایا کہ مکان کی موجودہ مالیت چالیس لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے، انہی عزیزوں کے سمجھانے اور خریدار پر دباؤ ڈالنے کی وجہ سے معاہدہ منسوخ کر کے بیعانہ کی رقم بغیر اضافہ کے واپس کردی گئی، یوں یہ سودا کینسل ہوگیا۔ عرصہ تقریباً دو سال بعد سابقہ منسوخ شدہ معاہدہ بیع کی قیمت ستائیس لاکھ پچاس ہزار کے مطابق بھائی نے میری والدہ اور ہم بہنوں کو اپنے حصے کی ادائیگی کر دی ہے اور کہا ہے بقیہ آدھے حصہ کی ادائیگی بڑا بھائی خود کر دے گا جو کہ روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر ہے، پھر یہ گھر دونوں بھائیوں کی ملکیت ہوگا، اس ضمن میں بھائی نے اپنی ماں کو ایک لاکھ اکہتر ہزار روپے اور ہم بہنوں کو دو لاکھ پانچ ہزار روپے فی کس اپنے حصہ کے ادائیگی کردی ہے۔

1۔ کیا بھائی منسوخ شدہ معاہدہ بیع والی ستائیس لاکھ پچاس ہزار  کے مطابق ادائیگی کرنے میں حق بجانب ہے جبکہ دو سال بعد اسی پراپرٹی کی قیمت ادائیگی کے وقت 60 لاکھ کے لگ بھگ ہوچکی تھی، اب اسی علاقہ میں 6 مرلہ کے پرانے گھروں کی ڈیمانڈ 60 لاکھ روپے کی جارہی ہے۔

2۔ کیا میری والدہ کو حصہ کی ادائیگی مبلغ ایک لاکھ اکہتر ہزار منسوخ معاہدہ بیع کے مطابق درست کی گئی ہے جبکہ وہ آدھی پراپرٹی کی خود مالک ہیں۔

3۔ اگر مندرجہ بالا تقسیم/ قیمت شرعاً درست نہیں ہے درست تقسیم واضح فرما کر سب کے حصہ جات کی وضاحت فرما دیں۔

4۔ نیز یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ والدین کی اجازت اور رضامندی کے بغیر جو موروثی جائیداد بیٹا از خود بیچ کھائے اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ میرے اسی بھائی نے موروثی جائیداد میں سے 10 -10 مرلے کے دو پلاٹ جو والدین نے ہم بہنوں کے لیے مختص کر رکھے تھے بیچ کر رقم اپنے استعمال میں کرلی اور والدین کو اس میں سے کچھ نہیں دیا جس کا انہیں از حد ملال رہا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ادائیگی کے وقت جو قیمت جائیداد کی تھی اس کا اعتبار ہوگا۔

2۔ والدہ کا کو بھی اس قیمت کے اعتبار سے حصہ دینا لازمی ہے، جو ادائیگی کے وقت جائیداد کی تھی۔

باقی "والدہ آدھی پراپرٹی کی خود مالک ہیں” اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا آدھی پراپرٹی والدہ کی اپنی ملکیت ہے۔ یا صرف صرف کاغذات میں والدہ کے نام تھی، اور حقیقت میں والد کی ملکیت تھی، اس کی وضاحت کریں؟

3۔ درست تقسیم یہ ہے کہ ادائیگی کے وقت جائیداد کی جو قیمت تھی اس کو 48 حصوں میں تقسیم کر کے 6 حصے والدہ کو، 14 – 14 حصے ہر ایک لڑکے کو، اور 7 – 7 حصے ہر ایک لڑکی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:

8×6= 48                                              

بیوی                  لڑکا      لڑکا      لڑکی     لڑکی

6×1                          6×7

6                              42

6                      14     14     7       7

4۔ والدین کی اجازت و رضامندی کے بغیر ان کی جائیداد کو فروخت کر کے استعمال کرنا ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے، اس سے توبہ و استغفار کریں، اور جتنی جائیداد فروخت کر کے استعمال کی تھی اتنی جائیداد کے پیسے والد کے ورثاء کو ان کے حصوں کے بقدر ادا کریں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved