• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مہر میں زوجین کا اختلاف

استفتاء

*** کا ذاتی کاروبار ہے۔ اس نے اپنی شادی پر اپنی بیوی*** کو اپنے کاروبار کا پچاس فیصد حصہ حق مہر میں دینے کا طے کیا۔ اس وقت کاروبار کی مالیت ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ دو سال بعد ***نے ***کو طلاق دے دی۔ اس وقت کاروبار کی مالیت تقریباً 60 لاکھ تھی۔ ثمینہ نے چار سال بعد دوبارہ شادی کرلی۔ *** نے دوسری شادی کے بعد***سے اپنے حق مہر کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ کے وقت کاروبار کی قیمت تقریباً ایک دو کروڑ تھی۔ ***حق مہر میں ایک کروڑ کا مطالبہ کر رہی ہے اور ***کہتا ہے کہ میں حق مہر میں تیس لاکھ دوں گا۔ کیونکہ طلاق دینے کے وقت اس کی مالیت ساٹھ لاکھ تھی۔*** کا شرعاً کتنا حق مہر بنتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو کروڑ میں سے 75 لاکھ کی عورت حقدار ہے جبکہ سوا کروڑ کا خاوند یعنی عاصم حقدار ہے۔

توجیہ:جب خاوند نے نصف کاروبار کا کہا تو اس سے مراد وہ سرمایہ ہے جو کاروبار میں لگا ہوا ہے۔ پھر یہاں اگرچہ صراحتاً عقد نہیں لیکن باہمی رضامندی کی وجہ سے اقتضاء شرکت یا مضاربت سمجھا جائے گا۔ اور پھر مضاربت میں عام طور سے نصف نصف پر معاملہ ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں عورت کے سرمائے یعنی پچاس لاکھ پر ہونے والے نفع یعنی پچاس لاکھ کو دونوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ چنانچہ عورت کا اصل سرمایہ پچاس لاکھ تھا اس سے پر پچاس لاکھ نفع ہوا۔ اس نفع میں سے پچیس لاکھ عورت کو ملے گا اور پچیس لاکھ خاوند کا ہوگا۔ چنانچہ مجموعی طور پر خاوند سوا کروڑ کا اور عورت 75 لاکھ کی حقدار ہوگی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved