• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایجاب و قبول کے وقت گواہوں کو لڑکی کی پہچان، ‘‘توڑ دو’’ کے الفاظ کا حکم

استفتاء

میرا سوال یہ ہے کہ میں نے اپنی منگیتر سے خفیہ نکاح کچھ اس طرح کیا کہ میں ایک جگہ بیٹھا تھا اور میرے پاس دو نوجوان بیٹھے تھے اور ایک مولانا، تو میں نے ان کے کہنے پر کچھ الفاظ اس طرح سے کہے کہ ‘‘میں نے اپنی منگیتر سے نکاح کیا 10000 حق مہر میں’’۔ اور پھر میں نے بعد میں اپنی منگیتر کو موبائل کے ذریعے پیغام بھیجا کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کرلیا ہے۔ اگر ہاں کہو گی تو نکاح ہوجائے گا۔ تو اس نے کہا ‘‘ٹھیک’’۔ میں خود لڑکی کا وکیل بن گیا۔ اس بات سے کچھ ماہ پہلے میں نے اس سے پوچھا تھا کہ میں تمہارا وکیل بن جاؤں تو اس نے کہا ہاں بن جاؤ۔ میں اس معاملے سے مطمئن نہیں ہوں۔

اس کے بعد میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ میں شادی کے لیے جلدی میں تھا اور بار بار گھر والوں کو کہتا تھا۔ جس کی وجہ سے میرے گھر والوں نے لڑکی کے والدین سے بات کی اور انہوں نے کہا دو سال بعد ۔ جب امی نے یہ بات مجھے بتائی تو میں نے بھائی اور امی کے سامنے غصے میں (ڈرانے کے لیے) یہ بات کہی کہ ‘‘توڑ دو’’۔ اس وقت میرے ذہن میں نہ ہی منگنی کا خیال تھا اور نہ نکاح کا۔ اور یاد رہے کہ میں اس لڑکی سے رشتہ بالکل نہیں توڑنا چاہتا۔

وضاحت: گواہوں کو یہ علم نہیں تھا کہ منگیتر کون ہے۔ مولوی صاحب کو بالکل علم نہیں تھا ایک نوجوان صرف اتنا جانتا تھا کہ لڑکی لڑکے کی رشتہ دار ہے اور دوسرا یہ سمجھتا تھا کہ یہ لڑکے کی پھوپھی کی بیٹی ہے حالانکہ لڑکی خالہ کی بیٹی ہے۔ یہ واقعہ یکم رمضان 21 جولائی کا ہے۔ بعد میں لڑکے نے جو کہا کہ‘‘توڑ دو’’یہ عید الفطر کے دوسرے دن کی بات ہے۔ ۱۵ مارچ کو دوبارہ نکاح لوگوں کے سامنے ہوا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح ہی منعقد نہیں ہوا کیونکہ ایجاب و قبول کے وقت عورت کی پہچان ضروری ہے جبکہ موجودہ صورت میں گواہ عورت کو نہیں پہچانتے۔

و لا المنكوحة مجهولة إلى ما ذكره في البحر هنا بقوله أو لابد من تمييز المنكوحة عند الشاهدين لتنتفي الجهالة … و إن كانت غائبة و لم يسمعوا كلامها بأن عقد لها وكيلها فإن كان الشهود يعرفونها كفى ذكر اسمها إذا علموا أنه أرادها و إن لم يعرفونها لا بد من ذكر اسمها و اسم أبيها و جدها … و كذا قال في البحر في فصل الوكيل و الفضولي أن المختار في المذهب خلاف ما قاله الخصاف و إن كان الخصاف كبيراً…. قوله لم يصح لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها و إسم أبيها و جدها و تقدم إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط. ( شامى: 4/ 104)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved