• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لڑکی کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح کرنا

استفتاء

22 سالہ ***تعلیم بی اے جاری کے لیے کم و بیش 29 یا 30 سالہ تبلیغی جماعت میں وقت لگانے والے غالباً میٹرک پاس مرد **** کا ( جس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے) رشتہ ایک مولانا صاحب نے بھیجا۔ **** کے بھائی، والدہ اور بہن جب لڑکی کے گھر گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ لڑکی کی چھوٹی بہن ( عمر 16 سال) بھی عالمہ ہے تو اس کا رشتہ بھی مانگ لیا مگر یہ رشتہ **** کے بڑے بھائی بکر ( عمر 33 سال) کے لیے بنتا تھا، جس پر لڑکی کے والد نے **** کے بھائی سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میری بیٹی ( عمر 16 سال) چھوٹی ہے۔ **** کے بھائی نے کہا کہ اگر ہم چھوٹی لڑکی کا چھوٹے لڑکے (29 یا 30 سال) اور بڑی لڑکی کا بڑے لڑکے (33 سال) سے کرلیں تو؟ لڑکیوں کے والد نے تب بھی انکار کیا۔

**** کے بھائی نے پھر منت سماجت کی اور سوچنے کو کہا تو کچھ دن سوچنے کے بعد اور دونوں لڑکوں **** اور بکر کو دیکھنے کے بعد لڑکیوں کے والدین نے ہاں کردی۔ چھوٹی لڑکی کا بڑے لڑکے (33 سال) سے کرنے کا خیال لڑکی والوں کے ہاں تو پہلے ہی محال تھا۔ جبکہ حال یہ تھا کہ چھوٹی لڑکی چھوٹے لڑکے سے کرنے پر بھی رضامند نہ تھی۔ چھوٹی کو بمشکل سمجھا بجھا کر چھوٹے لڑکے کے لیے راضی کیا گیا۔

چھوٹی لڑکی کی حالت دیکھ کر نکاح سے تقریباً ہفتہ ڈیڑھ پہلے چھوٹی لڑکی کے رشتے کا پھر انکار کر دیا گیا اور کہا گیا کہ صرف بڑی کا رشتہ کرنا ہے چھوٹے لڑکے کے لیے جو کہ مولانا صاحب نے بھیجا تھا اور بس۔ دوسرا رشتہ نہیں کرنا۔

اگلے غالباً ایک دو دن میں فیصلہ ایک دفعہ پھر تبدیل ہوا اور دونوں لڑکیوں کے رشتے بحال کر دیے گئے۔ مولانا صاحب دوسرے رشتے پر ناراض تھے اور اسی وجہ سے وہ اس معاملے سے الگ ہوگئے تھے۔ اس تمام وقت میں لڑکیوں کے علم میں یہی بات تھی کہ دو کا ہوگا تو چھوٹی کا چھوٹے اور بڑی کا بڑے سے ہوگا۔ اور اگر ایک کا ہوا تو بڑی کا چھوٹے سے ہوگا جو کہ مولانا صاحب نے بھیجا تھا اور بات چیت گھر کے افراد یعنی والد والدہ کے درمیان بھی ہوتی رہی۔

نکاح سے تین چار دن پہلے لڑکیوں کے ولی باپ کی طرف سے لڑکیوں کے ماموں نے **** کے بھائی سے بات کی اور طے کیا کہ *** ہوگا اور لڑکیوں کو رخصت کرنے لڑکیوں کے دونوں ماموں، ممانی اور ایک خالہ زاد بہن ساتھ جائیں گی اور چھوڑ کر واپس آجائیں گے یعنی چار افراد لڑکیوں کے ساتھ جائیں گے۔ **** کے بھائی نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم بڑی گاڑی کا انتظام کرلیں گے۔ لڑکیوں کا سامان فرنیچر وغیرہ پہلے ہی لڑکوں کے گھر پہنچا دیا گیا۔

نکاح کے لیے مقررہ دن پر ****، بکر اور ان کے دونوں بڑے بھائیوں نے اپنی ماں اور بہن (24 سال) کو لڑکیوں کے گھر چھوڑا اور لڑکیوں کے والد اور دونوں ماموؤں کو لیا اور مقررہ مسجد میں پہنچے۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے **** کا وہ بھائی جو رشتے کی بات چلا رہا تھا لڑکیوں کے والد سے کہنے لگا کہ ہم چھوٹی کا بڑے اور بڑی کا نکاح چھوٹے سے کریں گے۔ والد نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ **** کے بھائی نے کہا کہ ‘‘مولانا صاحب نے یو نہی کہا ہے کہ چھوٹی کا بڑے اور بڑی کا چھوٹے سے کرنا ہے۔’’ (حالانکہ مولانا صاحب نے یہ بات بالکل نہیں کہی تھی)۔ والد نے کہا انہیں ( یعنی مولانا صاحب کو) پھر تم نے بلایا کیوں نہیں؟۔ **** کے بھائی نے کہا کہ بلایا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ وقت ملا تو آؤں گا مگر میرا انتظار نہیں کرنا۔ والد نے کہا کہ اچھا اگر انہوں نے کہا ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ جمعہ کا دن تھا مسجد لوگوں سے بھری تھی۔ آخر میں جگہ ملی۔ لڑکے والوں نے لڑکیوں کے والد سے والد کا اپنا شناختی کارڈ لیا۔ جب بیان ختم ہوا تو لڑکے والوں نے بنا بتائے اپنی طرف سے مہر دس دس ہزار روپیہ پرچی پر لکھا اور بڑی لڑکی کا نام چھوٹے لڑکے کے ساتھ اور چھوٹی کا نام بڑے لڑکے ساتھ لکھا اور نکاح خواں کو دے دی۔ نکاح خواں نے نکاح پڑھا دیا۔ ولی کو کسی نے آگے نہ بلایا نہ ایجاب و قبول کرایا اور نہ ہی کچھ اور پوچھا۔

ادھر لڑکیوں کو اور نہ ہی ان کی والدہ کو اور نہ ہی دوسری مہمان آنے والی خواتین میں سے کسی بھی رشتہ دار وغیرہ کو یہ پتہ تھا کہ نکاح الٹ ہوئے ہیں۔ یعنی بڑی کا چھوٹے اور چھوٹی کا بڑے سے۔ سب کو یہی علم تھا کہ چھوٹے کا چھوٹی اور بڑے کا بڑی سے ہوا ہے کیونکہ نکاح رجسٹرڈ نہیں ہوا تھا نہ ہی لڑکیوں کے دستخط ہوئے تھے یعنی کاغذی کاروائی بالکل ہوئی ہی نہ تھی۔

مغرب کے قریب یہ لوگ یعنی لڑکیوں کے والد، دونوں ماموں، ****، بکر اور ان کے دونوں بڑے بھائی واپس لڑکیوں کے والدین کے گھر پہنچے۔ اور مردوں میں سے بھی کسی نے بھی نہ لڑکیوں کو بتایا اور نہ لڑکیوں کی والدہ کو اور نہ ہی کسی اور کو کہ نکاح کس کا کس سے ہوا ہے۔ چونکہ لڑکوں کی بہن لڑکیوں کے لیے ایک ایک سوٹ اور ایک ایک جوڑا جوتا اور مصنوعی زیور لائی تھی جس میں انگوٹھی بھی مصنوعی تھی۔ لڑکیوں نے انگوٹھی نہ پہنی تھی کہ عورت کے لیے سونے چاندی کے علاوہ انگوٹھی پہننا مکروہ ہے۔ لڑکوں کی بہن نے کہا کہ مجھے یہ ہاتھ خالی خالی اچھے نہیں لگ رہے۔ لڑکیوں کی والدہ نے کہہ دیا کہ پھر ایک آدھ نشانی لے آتیں! اس پر وہ بھڑک اٹھی اور خوب بدتمیزی سے پیش آئی جبکہ وہ سات سال مدرسے میں تعلیم حاصل کرچکی ہے۔ لڑکوں کی والدہ بھی لڑکیوں کی والدہ سے لڑنے لگی اور بات کو ختم کرنے کی بجائے بات بڑھانے لگی۔ لڑکوں کی بہن نے رونا شروع کردیا اور باقاعدہ چیخنے چلانے لگی۔ دونوں لڑکیوں کو اس پر شدید حیرت ہوئی بلکہ حیرت کے جھٹکے لگے وہ ماں بیٹی کہنے لگیں اب تو ہمارا نکاح ہوچکا ہے یہ اب تمہاری نہیں ہماری ہیں ہم سے بات نہ کرو، پیچھے ہٹ جاؤ وغیرہ وغیرہ۔ بڑی لڑکی نے لڑکوں کی ماں بہن اور اپنی ماں کے درمیان آکر بات کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ لڑکیوں کی والدہ کو گہرا دکھ اور صدمہ پہنچا تھا اور لڑکیوں کو بھی، مگر یہ سوچ کر کہ اب جانا تو انہی کے ساتھ ہے، صلح کرائی، اندر عورتوں کے درمیان اس لڑائی کا علم باہر مردوں کو نہ تھا۔

ادھر دوسری طرف **** اور بکر کے سب سے بڑے بھائی نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑکیوں کے دونوں ماموؤں کو درشت لہجے میں سے منع کر دیا کہ لڑکیوں کے ساتھ کوئی بھی قطعاً نہیں جائے گا۔ یہ سنت کے خلاف ہے ہم رسم و رواج نہیں کرتے ( حالانکہ کوئی ایک بھی رسم نہ کی گئی تھی)۔ **** و بکر کا تمام گھرانہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ باہر کی صورتحال کا علم اندر لڑکیوں کو نہ تھا۔ ادھر لڑکوں کی والدہ اور بہن نے لڑکیوں سے چلنے کو کہا اور اپنے آگے آگے لے کر بلکہ دھکیل کر باہر نکلنے لگیں نہ ملنے کا ٹائم دے رہی تھیں اور نہ خود مل رہی تھیں اور ماں کے دل پر جو گذر رہا تھا وہ وہی جانتی تھی۔ ممانی اور خالہ زاد بہن جو ساتھ جانے کو تیار تھیں وہ بھی صدمے سے نڈھال تھیں کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں اور یہ کیا کر رہے ہیں؟

المختصر لڑکیاں لڑکوں کی بہن کے ساتھ سب سے پچھلی سیٹ پر کیری ڈبہ میں بیٹھ گئیں ان سے آگے لڑکوں کی ماں اور اس سے آگے لڑکے **** وغیرہ۔ سفر گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کا تھا۔ راستے میں بڑی لڑکی نے لڑکوں کی بہن سے ماحول کو خوشگوار بنانے اور خوش طبعی کی خاطر ہلکی پھلکی بات چیت جاری رکھی اسی دوران یہ بات بھی اس کی زبان پر آئی کہ اپنے چھوٹے بھائی کو سمجھانا میری بہن چھوٹی ہے اتنی سمجھ نہیں رکھتی کہیں ڈر نہ جائے؟ تو وہ بولی نہیں میرے چھوٹے بھائی آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ بڑی لڑکی نے کہا اس نے مجھے کیا کہنا ہے بھلا! میرے ساتھ تو ویسے بھی کوئی تعلق نہیں بنتا اس کا۔ میری بہن کو کچھ نہ کہے۔ وہ بولی نہیں نہیں آپ ہیں نا، بڑی کا چھوٹے سے اور چھوٹی کا بڑے سے ہوا ہے۔ بس یہ بات سننا تھا کہ چھوٹی لڑکی کا دل گویا پھٹ ہی تو پڑا تھا وہ بولی نہیں تھی بلکہ اس نے دھماکہ کیا تھا اس کے الفاظ تھے ‘‘باجی یہ کیا بات ہوئی میرا تو نکاح ہی نہیں ہوا’’ اور بڑی لڑکی اپنی جگہ غیر یقینی کیفیت میں تھی اس نے لڑکوں کی بہن سے کہا کہ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے تم اپنے بھائیوں سے بے شک آگے جاکر پوچھ لو نکاح ایسے نہیں ہوئے۔ ہمیں تو کسی نے اس طرح نہ بتایا نہ پوچھا، وہ بار بار تاکیداً یہی کہتی رہی کہ نکاح ایسے نہیں ہوئے وہ قطعاً لڑکوں کی بہن کی بات پر یقین نہ کرسکتی تھیں کیونکہ یہ بات تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ بہرحال لڑکیاں اپنے موقف سے ہٹنے پر تیار نہ تھیں اور لڑکوں کی بہن اپنی بات کو اٹل کہہ رہی تھی۔ البتہ لڑکیوں کی بات کی وجہ سے لڑکوں کی بہن کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں وہ آگے جاکر بھائیوں سے پوچھ کر آئی تو کہنے لگی کہ چھوٹی کا بڑے اور بڑی کا چھوٹے سے ہوا ہے۔ بڑی لڑکی کو اب بھی یقین نہ آیا تھا اس نے کہا میری بات کراؤ۔ گھر بات کی تو پتہ چلا کہ لڑکوں کو بہن ٹھیک کہہ رہی ہے۔ بڑی لڑکی نے فوراً ان مولانا کو فون کیا جنہوں نے رشتہ بھیجا تھا کیونکہ وہ وہاں سے قریب تھے انہیں موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا وہ فوراً لڑکوں کے گھر پہنچے اور انہیں سمجھایا کہ ابھی طلاق کا لفظ کہہ دو میں دوبارہ ابھی بڑی کا بڑے اور چھوٹی کا چھوٹے نکاح پڑھوا دیتا ہوں۔ مگر لڑکے نہ مانے۔ چھوٹی لڑکی موجودہ ترتیب پر قطعاً راضی نہ تھی اور انکار بھی کر چکی تھی اور بڑی لڑکی بھی اس ترتیب پر رضامند نہ تھی۔

ادھر لڑکیوں کے والدین کے گھر گویا شادی نہیں موت ہوئی تھی والدہ کو غشی کے دورے پڑے اور ہر فرد کا رو رو کر برا حال تھا۔ لڑکے طلاق دینے پر راضی نہ ہوئے اور لڑکیاں موجودہ ترتیب پر راضی نہ ہوئیں یوں رات ڈیڑھ بج گیا دونوں لڑکیوں نے رات ایک جگہ بسر کی۔ اگلی صبح لڑکیوں کے والدین اور دونوں ماموں لڑکوں کے گھر پہنچے تو لڑکوں نے رویہ سرد رکھا۔ گھر کی عورتوں سے لڑکیوں کی والدہ نے پوچھا بچیاں کہاں ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ اوپر ہیں مگر اوپر نہیں جانا۔ ماں سے صبر کہاں ہوتا تھا وہ خود ہی اوپر چلی گئی۔ لڑکوں کی بہن نے یہاں بھی لڑکیوں کی والدہ سے بدتمیزی کی۔ بڑی لڑکی نے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لہجے کو درشت و ترش نہ ہونے دیا۔ مگر عورتوں نے لڑکیوں اور ان کی والدہ سے لڑائی کی اور کہا کہ اپنا سامان اٹھاؤ اور نکل جاؤ ہمیں نہیں چاہیے تمہارا سامان چلی جاؤ وغیرہ ( رات یہی لڑکوں کی بہن لڑکیوں پر مختلف طرح سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتی رہی تھی، کہتی رہی کہ نکاح ہوچکا ہے تم ہمارے بھائیوں کی بیویاں ہو، تم اس طرح کر کے گنہگار ہو رہی ہو وغیرہ جبکہ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ہمارا نکاح نہیں ہوا ہم سے کسی نے اس طرح اجازت نہیں لی تھی۔)

اسی دوران نچلی منزل پر مردوں کی بات چیت بھی ہو رہی تھی جس میں مولانا صاحب بھی شریک تھے لڑکی والوں کا مطالبہ تھا کہ بڑی کا بڑے سے اور چھوٹے کا چھوٹے سے کیا جائے اور لڑکے والے اس بات کو ماننے پر تیار نہ تھے۔ یہیں پر **** کے بھائی یہ جھوٹ بھی کھل گیا کہ مولانا صاحب نے چھوٹی کا بڑے اور بڑی کا چھوٹے سے کرنے کو کہا تھا۔ بالآخر وہ سب کہنے لگے کہ تم لے جاؤ لے جاؤ دونوں لڑکیوں کو لے جاؤ ہم لینے نہیں آئیں گے تم خود چھوڑ کر جاؤ گے۔ بڑے نے کہا کہ میں چاہوں تو آج ہی اپنے بھائیوں کی شادی کروا سکتا ہوں ابھی اپنا سامان اٹھاؤ اور جاؤ۔ دونوں لڑکیاں والدین کے ساتھ واپس آگئیں۔ لڑکے والوں نے لڑکی والوں کی درج ذیل باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہ مانی کہ

۱۔ بڑی کا بڑے اور چھوٹی کا چھوٹے سے کریں۔

۲۔ چھوٹی کو ہم لے جاتے ہیں اگر وہ کچھ مدت تک راضی ہوئی تو ٹھیک ورنہ اسے فارغ کردینا۔ اور بڑی کو چھوٹے کے لیے رہنے دیتے ہیں۔

۳۔ سامان بعد میں اٹھا لیں گے۔( مگر انہوں نے کہا کہ نہیں ابھی اٹھاؤ اگرچہ اٹھایا بعد میں ہی گیا تھا۔)

 آیا مذکورہ بالا صورت میں دونوں لڑکیوں کا نکاح ہوا ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عاقل بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر جائز نہیں اگر لڑکی کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر لڑکی کا نکاح لڑکی کا باپ کسی جگہ کردے تو وہ نکاح لڑکی اجازت اور رضا مندی پر موقوف رہتا ہے۔ اگر لڑکی اس نکاح پر رضا مند ہو جائے تو نکاح صحیح ہوجاتا ہے اور اگر لڑکی اس نکاح پر رضامند نہ ہو تو وہ نکاح باطل ہو جاتا ہے۔

مذکورہ صورت میں باپ نے لڑکیوں کا نکاح جس ترتیب سے کرایا ہے یعنی بڑی کا نکاح چھوٹے لڑکے اور چھوٹی لڑکی کا نکاح بڑے لڑکے سے لڑکیاں اس ترتیب پر نہ پہلے سے راضی تھیں اور نہ ہی بعد میں راضی ہوئیں اس لیے مذکورہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا اور باطل ہوگیا۔ طلاق کی بھی ضرورت نہیں۔

لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكراً كانت أو ثيباً فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته جاز و إن ردته بطل. (عالمگیری: 1/ 287)

تنبیہ: سوال نامہ پورا پڑھا اور جو جواب تھا وہ بھی لکھ دیا لیکن افسوس ہوا کہ دونوں خاندان دین کی تبلیغ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور پھر ایسی خلاف شریعت اور خلاف عقل معاملات کرتے ہیں۔ کچھ تو خدا سے ڈرنا چاہیے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved