• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کی صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں

  1. میں اپنی زندگی میں تمام جائیداد وغیرہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے بعد اولاد میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مجھے تقسیم کا طریقہ کار بیان فرما دیں۔

2۔ میرے چار بیٹے اورچار بیٹیاں ہیں میں نے اپنے ایک بیٹے کو ضرورت کی بناپر مکان اوردوکان بناکردی جس کی قیمت اس وقت تقریبا بارہ لاکھ روپے تھی اس کےبعد دوسرے دوبیٹوں نے مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ ہمیں بھی اس کےبرابر حصہ دیا جائے جبکہ وہ اس طرح ضرورت مند نہ تھے۔

پھر میں نے ان دوبیٹوں کےاصر ار پر ان کو بھی تقریبا بارہ بارہ لاکھ روپے مکان کی صورت میں دےدئیے جن کی قیمت اب تین چار گنابڑھ چکی ہے پھر اس کے بعد چوتھے بیٹے نے بھی مطالبہ کیا کہ مجھے بھی ان تینوں کے برابر حصہ دیا جائے تو میں نے اسے بھی مکان کی صورت میں حصہ دے دیا ۔

اس کےبعد بیٹیوں کی طرف سے بھی مطالبہ آیا کہ آپ نے بیٹوں کو جو کچھ دیا ہے ہمیں بھی اس کےمطابق دیا جائے جبکہ بیٹے تو اپنے اپنے گھروں میں خوشحال ہیں اورکچھ بیٹیاں معاشی لحاظ سے کمزور ہیں اور کرائے کےمکان میں گزارہ کر رہی ہیں اس ساری صورتحال کےپیش نظر جبکہ میں اپنے بیٹوں کو اپنی کچھ جائیداد سے کچھ حصہ دے چکا ہوں اوراب بیٹیاں بھی مطالبہ کررہی ہیں ۔

(1)کیا شریعت محمدیہﷺ کی رو سے بیٹیوں کو بھی حصہ دینا میرے ذمہ بنتاہے؟

(2)اگر بنتاہے تو کیا کئی سال پہلے دئیے گئے بارہ لاکھ روپے جن کی قیمت آج تین چارگنا بڑھ چکی ہے اس  حساب سے دیا جائے یا موجودہ قیمت کے مطابق دیا جائے ؟

(3)اگر میں بچیوں کو نہ دوں تو ناانصافی تو نہیں ہوگی؟اورمیں گناہ گار تو نہیں ہوں گا؟

  1. میرے چار بیٹوں میں سے ایک بیٹا فوت ہو چکا ہے اور اس فوت شدہ بیٹے کی اولاد میں دو بیٹے، ایک بیٹی(سب نابالغ ہیں ) اور بیوہ موجود ہے۔ میں اپنی جائیداد وغیرہ کی تقسیم کے عمل میں اپنے ان یتیم پوتوں، پوتی اور بیوہ کو شامل کر سکتا ہوں ؟کیا شریعتِ محمدی میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ ازراہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرماکرعنداللہ ماجور ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔زندگی میں جائیداد وغیرہ تقسیم کرنے میں بہتر صورت یہ ہے کہ لڑکے ،لڑکیوں کو برابر دیں اور یہ بھی جائز ہے کہ لڑکے کو دوحصے اورلڑکی کو ایک حصہ دیں۔

2۔مذکورہ صورت میں بیٹیوں کوحصہ دینا بھی آپ کےذمہ ہے۔

الف۔دونوں طرح آپ کرسکتے ہیں۔

ب۔نہ دینے کی صورت میں ناانصافی ہوگی۔

بخاری میں ہے:

 عن النعمان بن بشيررضى الله عنهما أعطاني أبي عطية،‏‏‏‏ فقالت عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية،‏‏‏‏ فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله‏.‏ قال ‏”‏ أعطيت سائر ولدك مثل هذا ‏”‏‏.‏ قال لا‏.‏ قال ‏”‏ فاتقوا الله،‏‏‏‏ واعدلوا بين أولادكم ‏”‏‏.‏ قال فرجع فرد عطيته‏.

ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں (میری والدہ نے میرے والد سے مطالبہ سے کیا کہ کہ وہ مجھے اپنے مال میں سے ایک غلام ہدیہ کریں ۔میرے والد نے ان کے مطالبہ کو ایک دوسال ٹالا لیکن پھر مجبور ہوکر) میرے والدنے مجھے(وہ غلام)ہدیہ (کرنے کافیصلہ)کردیا(میری والدہ کو اتنی بات پر تسلی نہ ہوئی اس لیے توثیق کی خاطر میری والدہ ) عمرہ بنت رواحہؓ نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنالیں مجھے تسلی نہ ہو گی۔ میرے والد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اورکہا میری بیوی عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو(غلام) ہدیہ (کرنا طے)کردیا لیکن اب  اے اللہ کےرسول اس نے مجھ سے کہا ہے کہ  میں(اس پر) آپ کو گواہ بنا لوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےپوچھاکہ کیا تم نے اپنی باقی اولاد کو بھی اسی جیسا ہدیہ (دینے کا فیصلہ )کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں،( اس پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا      اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان برابری اورانصاف کرو ۔اس پر میرے والد واپس آگئے اور ہدیہ(کافیصلہ ) واپس لے لیا۔

3۔آپ اپنے فوت شدہ بیٹے کے بیوی ،بچوں کو بھی دے سکتے ہیں ،جس کی صورت یہ ہے کہ اس بیٹے کا جتنا حصہ بنے وہ ان کے بیوی بچوں کو دیدیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved