- رابطہ: 3082-411-300 (92)+
- ای میل: ifta4u@yahoo.com
- فتوی نمبر: 17-229
- تاریخ: اگست 15, 2024
- عنوانات: مالی معاملات, وراثت کا بیان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
(1) ایک شخص فوت ہوگیا ہے اور اس کے ورثاء میں 2بھائی اور 4 بہنیں ایک بیوی(بیوہ) اور ایک بیٹی ہے اور کل میراث 60لاکھ روپے ہیں تو شریعت کے مطابق ان میں تقسیم کس طرح ہوگی؟
(2)وفات پانے والے شخص کی میراث میں سے اس کے فوت شدہ بھائی اور فوت شدہ بہن کی اولاد کو میراث میں سے کچھ حصہ ملے گا یا نہیں ؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلے کا حل بتائیں
وضاحت مطلوب ہے!
(1)میت کے والدین حیات ہیں یا وفات پا گئے ہیں اگر وفات پا گئے ہیں تو کیا میت سے پہلے وفات پا گئے ہیں یا بعد میں؟
(2) میت کے جو بھائی بہن فوت ہو گئے ہیں وہ (مذکورہ میت)سے پہلے فوت ہوئے تھے یا بعد میں؟
جواب وضاحت!
(1)میت کے والدین میت سے پہلے انتقال کرگئے تھے۔
(2) میت کے فوت شدہ بھائی بہن (مذکورہ میت) سے پہلے وفات پا گئے تھے-
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں میت کے کل مال میراث یعنی (6٫000٫000)ساٹھ لاکھ روپے میں سے میت کی بیوی (بیوہ) کو (750٫000)سات لاکھ پچاس ہزار روپے ملیں گے اور میت کی بیٹی کو 3٫000٫000 تیس لاکھ روپے ملیں گے اور میت کے دو بھائیوں میں سے ہر بھائی کو (562٫500)پانچ لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو روپے ملیں گے اور میت کی چار بہنوں میں سے ہر بہن کو(281250) دو لاکھ اکیاسی ہزار دو سو پچاس روپے ملیں گے.
(2) میت کے جو بھائی بہن فوت ہو گئے ہیں ان کی اولاد کا اپنےچچا کی میراث میں سے کوئی حصہ نہیں ہے لیکن ورثاء میں سے کوئی اپنی خوشی سے ان کو اپنے حصے میں سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
8×8=64 ترکہ:6000000
بیوہ———– 1بیٹی ——— 2بھائی———– 4بہنیں
ثمن——— نصف ————–عصبہ
1/8 1/2 3×8
1×8 4×8 24
8 ———–32————- فی بھائی6————- فی بہن3
750000 3000000 562500 281250
© Copyright 2024, All Rights Reserved