• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسئلہ تقسیم میراث کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ا سد کا انتقال ہوگیا ہے ۔ورثاء  میں ایک بیوہ، دو بیٹیاں، والدہ، تین بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔بیوہ جس مکان میں ہے وہ اسد کا ذاتی مکان تھا اسد نے اپنی زندگی میں آدھا مکان اپنی بیوی کے نام لگوادیا تھا اب بیوہ کے سسرال والوں کی طرف سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے مکان میں اسد کے بھائی اور بھابی کو بھی ساتھ رکھے جبکہ بیوہ ان  کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی شرعاًکیا حکم ہے ؟ رہنمائی فرمائیں کہ ان کو گھر میں رکھنا ضروری ہے کہ نہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے: 1)شوہر نے حالت صحت میں مکان بیوی کے  نام کیا تھا یا مرض الموت میں؟

2)شوہر نے صرف کاغذی کارروائی میں ہی نام کیا تھا یا مالک بنانے کی غرض سے نام کیا تھا؟

جواب وضاحت:1) شوہر نے صحت کی حالت میں مکان بیوی کے نام کیا تھا۔

2) شوہر نے بیوی کو مالک بنانے کی غرض سے مکان نام کیا تھا اور رجسٹری انتقال مکمل اختیارات بیوی کے نام کر دیا تھا جبکہ شوہر  کی زندگی میں اس مکان میں صرف میاں بیوی اور بچیاں  رہتی تھیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں یہ مکان اسد کی بیوہ اور اس کے باقی ورثاء (جن میں اسد کا بھائی بھی شامل ہے)کے درمیان مشترک ہے۔اور چونکہ یہ مکان ابھی تک تقسیم نہیں ہوا لہذا سب ورثاء  اس میں اپنے  اپنے حصے کے بقدر  رہائش رکھنے کے حقدار ہیں۔جس کی صورت یہ ہے کہ مذکورہ مکان کے 192 حصے بنائے جائیں اورف تمام ورثاءاپنے اپنے وراثتی حصوں (حصوں کی تفصیل آخر میں مذکور ہے ) کے بقدر اس میں رہائش اختیار کرلیں ۔اگران کے وراثتی حصہ میں رہائش اختیار کرنا ممکن نہیں تو مزید حصہ میں رہنے کا کرایہ ادا کریں۔دوسری صورت یہ ہے کہ مکان کے وراثتی حصوں کے بقدر 192 دن بنا لیے جائیں اور جتنے ہر شریک کے وراثتی حصے ہیں اتنے دن وہ اس سے نفع حاصل کرے ۔اور کسی شریک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو اس کے اپنے حصے میں رہنے سے منع کرے۔

وراثتی حصوں کی تقسیم درج ذیل ہے :

24×8=192

میتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

بیوہ———-                        2بیٹیاں———–              والدہ                  ———-3بھائی                ———2 بہنیں

1/8                  ———2/3————                   1/6———-                              عصبہ

3×8             16×8           4×8                       1×8

24                  128               32                              8

یعنی کل ترکے کے 192 حصے کر کے اس میں سے 24 حصے بیوی کو ،128حصے بیٹیوں کو  (فی بیٹی64)،32 حصے والدہ کو اور ہر بھائی کو 2 اور بہن کو 1 حصہ دیا جائے گا۔

چنانچہ امداد الفتاوی جلد 3 صفحہ 476 میں ہے:

داخل خارج سبب ہبہ ہے یا؟

سوال: بیبی (بیوی)کا قبضہ بحیثیت داخل خارج کاغذات سرکاری میں ہوگیا اور اس کی بیٹی وصول تحصیل لگان کرتی ہے؟

الجواب اگر قرائن سے معلوم ہو کہ خاوند کو یہ جائیداد بیوی کو دینا ہی مقصود ہے تو یہ ہبہ ہو گیا۔

الدر المختار 6/269

ولو تهایئا  في سكنی دار واحد یسکن هذا بعضا وذا بعضا اوهذا شهرا وذا شهرا او دارين يسكن كل دارا او في خدمة عبد يخدم هذا يوما وذا يوما او عبدين  يخدم هذا هذا والاخر الاخر او في غلة داراو دارين كذلك صح التهايؤ  في الوجوه الستة استحسانا اتفاقا والله اعلم

شرح المجلة 4/23

والاصل ان الدار المشتركة  في حق السكنى وتوابعها تجعل كملك واحد لكل واحد من الشريكين على الكمال اذلو لم تجعل كذلك يمنع كل منهما من دخول وقعود ووضع امتعة فتتعطل عليها منافع ملكها وهو لم يجز .

ثم اعلم ان احد الشريكين في الدار  انما يحل له السكني في مقدار  حصته فقط كما سياتي في مادة 1081 وان كان قضاء لا يلزمه اجر لو سكن كلها باعتبار انه مالك لكل الدار.في الخانىة للحاضر ان يسكن كل الدار بقدر حصته وفي رواية له ان يسكن منها قدر حصته ولو خاف ان تخرب الدار له ان يسكن كلها انتهى

والفرق بين الروايتين ان الرواية المشهورة انه لو كان له نصف الدار مثلا يسكنها كلها مدة بقدر حصته كنصف سنة ويتركها نصف سنة وعلي الرواية الثانية يسكن نصفها فقط

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved