• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میراث کامسئلہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہمارے بھائی قاسم علی کا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا ہوا اور اس نے خود کشی کر لی ہے اس حادثے  سے پہلے اس نے ایک میسج اپنی بیوی کو کیا جو مندرجہ ذیل ہے:

قاسم نے اپنے قرضہ کی تفصیل بیان کی۔پھر کہا کہ:

میرا گھر بیچ کر میرا قرضہ ادا کیا جائے۔باقی پیسوں سے میرے بچوں کے لیے گھر خریدا جائے۔میری وراثت میں آپکا کوئی حصہ نہیں۔میری موت کے ساتھ آپ کی تین طلاقیں جڑی ہیں۔موت کے پوائنٹ پر ہوں اس لیے بائے۔رداء بیٹی سے بات کروادو۔

درج ذیل سوال پوچھنے ہیں:

.2قاسم علی کے تین بچے (دو بیٹے اور ایک بیٹی) ،والدین ،ایک بہن اور ایک بھائی ہے۔قاسم علی کی وراثت میں بچوں،والدین اور بھائی بہنوں کا کتنا حصہ بنتا ہے؟

.3قاسم علی کی بیوی کا بھی کوئی حصہ بنتا ہے؟

.4اب قاسم علی کے بچوں کی کفالت اور رہائش کس طرح ہوگی اور کس کی ذمہ داری ہوگی؟

وضاحت مطلوب ہے:.1 قاسم علی کا کل ترکہ کیاہے؟

.2 بچوں کی عمر کیا ہے؟

.3 کیا مکان فروخت کیے بغیر قرض کی ادائیگی ممکن ہے؟اگر ممکن ہے تو کیاصورت ہے؟

جواب وضاحت:.1 کل ترکہ ایک مکان اور سامان اور اس کی تنخواہ ہے۔

.2 بڑے بیٹے کی عمر چھ سال ،دوسرے بیٹے کی عمر پانچ سال اور بیٹی کی عمر تین سال ہے۔

.3 بچوں کے دادا ایک علیحدہ گھر میں کرایہ پر رہتے ہیں ۔ان کا مؤقف یہ ہے کہ بچے اور ان کی ماں اسی گھر میں رہیں اور ان کا نفقہ دادا کے ذمے ہوگااور قاسم علی کے گھر کو کرایہ پر دے دیا جائے اور اس کے کرایہ سے اس کا قرض اتارا جائے۔

جبکہ قاسم علی کی بیوی کا مؤقف یہ ہے کہ قاسم علی کے مکان کا مکمل اختیار ہمیں دے دیا جائے ہم اس کو جو چاہے کریں اور وہ اپنے سسر کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں۔وہ ابھی اپنے میکے میں رہ رہی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

.2قاسم علی کے ورثاء اس کی بیوی ،والدین اور اولاد ہیں۔ لہذا قرضوں کی ادائیگی کے بعد ان کی کل میراث کے 120حصے کیے جائیں گے جن میں سےبیوی کو 15 حصے ،باپ کو 20 حصے ،ماں کو 20 حصے ،2 بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو6 2 حصے اور بیٹی کو 13حصے ملیں گے جبکہ بھائی بہن محروم ہونگے۔

.3قاسم علی کی بیوی بھی شرعی طور پر اسکی وارث ہے اور اسکے مال کی مستحق ہے۔مورث (مرنے والے) کے محروم کرنے سے وارث کا حق ختم نہیں ہوتا۔

.4اگر بچوں کی ملکیت میں اتنا مال ہو کہ جس میں سے ان کے نان نفقہ کا انتظام ہو سکتا ہو تو ان کا نان نفقہ انہیں کے مال میں سے ہوگاورنہ نان نفقہ ایک تہائی ماں کے ذمہ اور دو تہائی دادا کے ذمہ ہوگا اور اگر ماں کے پاس اتنا مال نہ ہو تو تمام نفقہ دادا کے ذمہ ہوگا۔پرورش لڑکوں کی سات سال کی عمر تک اور لڑکی کی نو سال کی عمر  تک بیوی کے ذمے ہوگی اور اس کے بعد دادا کے ذمے ہوگی۔

در مختار مع الشامی4/470 میں ہے:

( أنت طالق واحدة أولا أو مع موتي أو مع موتك لغو ) أما الأول فلحرف الشك وأماالثاني فلإضافته لحالة منافية للإيقاع أو الوقوع  .

عالمگیری 3/39 میں ہے:

وإن كان الأب قد مات وترك أموالا وترك أولادا صغارا كانت نفقة الأولاد من أنصبائهم وكذا كل ما يكون وارثا فنفقته في نصيبه .

فتاوی عالمگیری  43/3میں ہے:

و لو کان له ام و جد فان نفقته عليهما اثلاثا علی قدر مواریثهما ، الثلث علی الام و الثلثان علی الجد .

در مختار مع الشامی 273/5 میں ہے:

(و الحاضنة) اما او غيرها (احق به) اى بالغلام حتى يستغنى عن النساء و قدر بسبع و به يفتى لانه الغالب .

 فى الشامى:”وفي شرح المجمع وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه”.

در مختار مع الشامی 274/5 میں ہے:

( والأم والجدة أحق بها ) بالصغيرة ( حتى تحيض ) ( وغيرهما أحق بها حتى تشتهي ) وقدر بتسع وبه يفتى وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا . زيلعي ( وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك ) وبه يفتى لكثرة الفساد . زيلعي . وأفاد أنه لا تسقط الحضانة بتزوجها ما دامت لاتصلح للرجال إلا في رواية عن الثاني إذا كان يستأنس . كما في القنية .

فى الشامى: "قال في البحر لأنها بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى”.

خیر الفتاوی 148/6 میں ہے:

سوال:ایک شخص مسمی عبد القادر نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔جس سے شخص مذکور کے دو بچے بھی تھے۔طلاق کے بعد شخص مذکور چھ ماہ تک زندہ رہا اور بچوں کا خرچہ بچوں کی والدہ کو دیتا رہا۔لیکن چھ ماہ بعد مسمی عبد القادر فوت ہوگیااور بچوں کو ترکہ میں معمولی سی رقم ملی جو ختم ہوچکی۔بچوں کی والدہ خود تنگدست ہے حسب توفیق خرچ کرتی رہتی ہے۔مگر بچوں کے دادا سے بچون کے خرچ کا مطالبہ کیا گیا کہ تم بھی بچوں کے لیے ماہانہ خرچ دیا کرو لیکن وہ اس پر نہیں آتا کیا بچوں کے دادا پر خرچ لازم ہے یا نہیں؟

جواب :اگر بچوں کا اپنا مال نہیں تو صورت مسؤولہ میں بچوں کے دادا پر نابالغ بچوں کا اور دونوں قسم کی بچویوں کا خرچہ شرعا واجب ہے۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

24×5==120

بیوی——–           ماں                   ——-باپ                  ———-2بیٹے     ———1بیٹی———-                 2بھائی

1/8————          1/6———–                 1/6———                 5عصبہ——–                           محروم

3×5          4×5                 4×5                 13×5

15                        20                    20                    65

فی بیٹا26 فی—————- بیٹی13

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved