• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بہنوں کی دلی رضامندی سے ان کاحصہ لیا جاسکتا ہے

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

زید دنیا سے رخصت ہو گیا،ورثاء میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں،زید کی ملکیت میں ایک عدد مکان ہے جس کی مالیت دو کروڑ کےقریب ہے اور ایک عدد دکان ہےجس کی مالیت پانچ کروڑ کے قریب ہے اور اس کے علاوہ چند ہزار نقدی اورسازوسامان ہے۔زیدکی تمام بیٹیاں بیاہی ہوئی ہیں، اپنےاپنے گھروں میں ہیں، گھر اور دکان پر قبضہ بیٹوں کا ہے۔

اب کیا بھائی بہنوں کو مثال کے طور پر پچاس لاکھ روپے(فی بہن)دےکر مکان اوردکان کوبہنوں سے اپنے نام کرواسکتے ہیں؟شرعی طور پر اس میں کوئی حرج تو نہیں، اگر ہے تو پھر اس صورت میں شرعی طور پر تقسیم کیسے ہوگی؟

مزید وضاحت:زید کی وفات سے پہلے زید کے والدین اور بیوی فوت ہوئے تھے،نیز  بہنیں بھی راضی ہیں۔ ترکہ کی مالیت کا اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کیونکہ مکان اور دکان بھائیوں کے قبضہ میں ہے. دکان کا تخمینہ آجکل کے ریٹ کے اعتبار سے پانچ کروڑ اور گھر کا دو کروڑ ہے، جبکہ زید کی وفات دس سال پہلے ہوئی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر بہنیں اپنی دلی رضامندی سے فی بہن پچاس لاکھ روپے لے کردکان اورمکان میں اپناحصہ بھائیوں کےنام کروانا چاہیں توکرواسکتی ہیں لیکن اگر بہنیں دل سے رضامندنہ ہوں توان کوان کاشرعی حصہ دیناضروری ہے جس کی صورت یہ ہے کہ کل ترکہ کو 12(بارہ)حصوں میں تقسیم کرکے ایک،ایک حصہ فی بہن دیدیاجائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved