• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں کسی کو کچھ دینے سے وراثت میں اس کا حق ختم نہیں ہوتا

استفتاء

کل بھائی پانچ ہمشیرہ ایک ہے۔

1999ء میں فاروق نے جو کہ سب بہن بھائیوں  میں سے چھوٹا ہے ۔ فاروق نے بیرون ملک آنے کا ارادہ کیا ۔ کسی بھائی نے مالی طور پر کوئی مدد نہیں کی۔ فاروق کے والد صاحب نے  اپنی آدھی دکان فروخت کی ۔ جو کہ تین لاکھ پچاس ہزار میں فروخت ہوئی اور دو لاکھ روپے بطور قرض اس شرط پر کہ اگر ایک سال کے اندر  واپس کردیئے تو ٹھیک ۔ ورنہ باقی ماندہ دکان کی قیمت تصور ہوگی۔ فاروق کو دیئے کہ تم یہ پیسے لو اور پاکستان میں کوئی اچھا زریعہ معاش نہیں ۔ لہذا یہ   پیسے لو اور بیروین ملک جاکر مزدوری کرو۔ جس میں سے  25 ہزار روپے والد صاحب کو عابد کے ذریعے فاروق نے دے دیئے۔فاروق نے ایک سال کے اندر دولاکھ کا قرض جوکہ دوسری  دکان کا تھا۔ ادا کردیااور دکان آزاد کروالی۔ اس کے بعد والد صاحب کا کچھ اور قرض جو کہ تقریباً ایک لاکھ روپے بنتا ہے وہ بھی ادا کردیا۔ اور اس کے علاوہ مالی طور پر والدین کی مدد کرتا رہا۔ جس میں معمولی اخراجات کے علاوہ  بیس ہزار ایک مرتبہ چالیس ہزار ایک مرتبہ  پینتیس ہزار ایک مرتبہ اور ساٹھ ہزار اس وقت جب والدہ  شدید بیمار تھیں۔بڑے بھائی عابد کو بھیجا۔ اور اس نے جہاں مناسب سمجھا اس نے خرچ کیا۔ اس کے علاوہ جس مکان میں رہائش پذیز  بڑابھائی عابد،فاروق اور والدین تھے اس کی تعمیر نو کے لیے مبلغ سات لاکھ روپیہ ارسال کیا او ر جب والدہ  وفات پاگئیں  پھر ان کی وفات پر  دو لاکھ خرچ کیا۔ جس میں سے باقی بھائیوں میں سے صرف منظور نے  بیس ہزار دیا۔تین بھائیوں کی شادیاں اور ہمشیرہ کی شادی والدین نے کی ۔ حتی کہ ایک بھائی کی شادی میں والد صاحب نے جائیداد فروخت کرکے  جو جہ چکرالہ ضلع میانوالی  میں ہے۔ شادی کا زیور  بنوایا۔ اور تمام  اخراجات کئے ۔ فاروق کی عدم موجودگی میں والدہ کے انتقال  کے بعد تین بھائیوں نے بارہا والد صاحب سے کہا باقی ماندہ دکان ہماری ہے اور فاروق کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ لہذا وہ ضبط کرکے رقم ہمیں دیں ۔ لیکن والد صاحب نے ارشاد فرمایا کہ وہ سب سے چھوٹا ہے ابھی اس کی شادی کرنی ہے ۔ تم سب کی شادیاں ہوگئیں ہیں۔  وہ آئے گا۔ دکان میں اس کا حصہ موجودہے اور جب فاروق پاکستان آیا ۔ والد صاحب نے ساری بات فاروق کو بتائی۔ کہ تمہارے بھائی مجھے دکان فروخت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن میں نے ان کو یہی جواب دیا ہے کی فاروق کا اس  میں حصہ موجود ہے اور اس بات کے گواہ موجود ہیں۔ اس کے بعد فاروق شاد ی کی اور اپنی شادی پر تمام خرچہ خودکیا والد صاحب ضعیف تھے اور بارہا پوچھا  اگر چاہتے  ہوتو میں دکان فروخت کرکے تمہاری شادی کردیتاہوں۔ تو پھر لیکن فاروق سارے  اخراجات خود برداشت کیے اب بھائیوں نے باقی دکان  اٹھارہ لاکھ پچاس ہزار روپے میں فروخت کی اور دعویٰ یہ ہے کہ والدین نے اپنی زندگی میں جو گفٹ دیا ہے وہی  تمہارا حصہ ہے باقی دکان میں تمہا را کوئی حصہ نہیں میں آپ کی خدمت مین عرض کرتاہوں کہ شر عی حیثیت سے جو فیصلہ بنتا ہے وہ ارشاد فرمائی، شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد میرے گھروالوں نے میرے ساتھ اور بیوی کے ساتھ ظلم شروع کروادیئے ۔

مسئلہ1: والد صاحب نے اپنی زندگی میں فاروق کو جو گفٹ دیا کیا باقی بھائی اس میں شریک ہیں؟

مسئلہ2: جو شادیاں والدین نے اپنی زندگی میں بھائیوں کی  ہیں کیا فاروق اس میں حصہ  دار ہیں؟

مسئلہ3: جو جائیداد والدین نے چھوڑی ہے کیا فاروق اس میں برابر کا شریک ہے؟

مسئلہ4: جو جائیداد والدہ کی تھی انہوں نے اپنی زندگی میں اس میں سے نا پہلے کسی کو کچھ دیا اور نہ اب کچھ فروخت ہو اکیا ساری اولاد اس میں برابر کی شریک ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں فاروق باقی ماندہ آدھی دکان میں بھی شریک ہے۔

2۔بھائیوں کی شادی میں فاروق حصہ دار نہیں ۔

3۔4۔والد اور والدہ دونوں کے ترکہ میں فاروق اپنے شرعی حصہ کے بقدر شریک ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved