• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تنسیخ نکاح

استفتاء

عرض ہے کہ ہماری ایک عزیزہ کی شادی***میں ہوئی مگر دوسرے ہی روز اس کے ساتھ ناروا سلوک رکھا گیا اور لڑکی سے کہا کہ اسے ایک ضد کی خاطر شادی کرکے لا یا گیا ہے(واضح رہے کہ ایک لمبے عرصے تک دونوں خاندانوں میں ناچاقی رہی). لڑکی وہاں تقریبا پندرہ دن تک رہی اور ان دنوں میں لڑکے والوں نے اسے طرح طرح کی ذہنی اذیتیں دیں۔ اب لڑکی اور لڑکی کے والدین  کے پاس طلاق کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔خاندان کے چند بزرگوں نے طلاق دلوانے کی کوشش کی مگر لڑکے نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں ساری زندگی طلاق نہیں دوں گا چاہے لڑکی اپنے گھر آئے یا نہ آئے، لڑکی کے والدین نے عدالت سے رابطہ کیا ۔ عدالت نے دوبار لڑکے کو عدالت میں حاضرہونے کا پیغام پہنچایا مگر لڑکا حاضر نہ ہوا ۔ بعد ازاں عدالت نے اخبار کے ذریعے دوبارہ اطلاع بھجوائی مگر لڑکا پھر بھی نہ آیا۔ آخر جج نےیہ فیصلہ سنایا:

"میں نے***کے ذریعے لڑکے والوں کو کیس حل کرنے کے لیے اورپھر اخبار کے ذریعے بھی پیغام پہنچایا ۔ لیکن ان  میں سے کوئی بھی حاضر نہیں ہوا ۔ نتیجہ کے طور پر اب میرے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ میں لڑکی والوں کے حق میں فیصلہ دے دوں۔ لہذا میں لڑکی  کے خلع کے مطالبہ کو تسلیم کرتاہوں او ر خلع کا فیصلہ کرتاہوں ، لڑکے کو عدالت کا فیصلہ سنایا گیا تو اس نے کسی اعتراض کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس فیصلہ کے خلاف درخواست دی بلکہ جب عدالت کا فیصلہ لڑکے تک پہنچا تو اس نے سارا جہیز بھی واپس کردیا اور اقرار نامہ لکھا۔  لڑکے اور لڑکی کے اقرار نامہ کی فوٹو کاپی میں ارسال کررہاہوں”۔

مگر اب ہمارے علاقے کے مفتی حضرات نےیہ کہا ہے کہ طلاق ابھی تک نہیں ہوئی۔ لڑکے کا اپنی زبان سے اقرار کرنا ضروری ہے۔ خاندان کے چند بزرگوں نے لڑکے سے بذریعہ منت سماجت کرکے طلاق دینے کو کہا توہ کہنے لگا کہ میں ساری زندگی طلاق نہیں دوں گا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر طلاق ہوچکی ہے تو براہ کرم بتادیں  فتوی کے ذریعے اور اگر نہیں تو اس کا حل کیا ہے؟ کیونکہ لڑکی والوں نے دوبارہ مقدمہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے وکیل نے کہاکہ اب کس بات پر مقدمہ کریں گے کیونکہ عدالت نے تو اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔ آپ بلا وجہ  کی تحقیق کرنے کی بجائے عدالت کے فیصلے پر اکتفاء کریں۔ دوسری طرف لڑکا ساری زند گی طلاق دینے کے لیے تیارنہیں ہے۔عدالت سے فیصلہ لیے ہوئے تقریباً چار ماہ گزر چکے ہیں۔ برائے مہربانی اس مسئلے کا حل بتائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عدالت نے مذکورہ حالات میں تنسیخ نکاح کیا ہے اور خلع کا ذکر نہیں کیا۔ لہذا تنسیخ نکاح جائز ہے۔ اور عورت عدت گذار کر کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

(نوٹ: سوال میں اگرچہ خلع کا ذکر ہے لیکن جج نے منسلکہ انگریزی فیصلے میں صرف تنسیخ کا ذکر ہے اور جواب اسی کی بنیاد پر ہے۔)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved