• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دماغی حالت صحیح نہ ہونے کی حالت میں طلاق دینا

شوہر کا بیان

میری زندگی کے ، دو اڑھائی سال بہت اچھے گذرے۔ اس کے بعد میں تبلیغ میں چلا گیا۔ میرے وہاں  تین ماہ  بالکل ٹھیک گزرے۔ اور آخری ماہ میں میرے ذہن میں اچانک گندے اور کفریا وسوسے آنے لگے، جن کی بنا پر میں بہت پریشان ہونے لگا، جب  میرے تبلیغ میں چار ماہ  مکمل ہوگئے، تو میں گھر آگیا ، گھرمیں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد گندے وسوسے اور بڑھتے چلے گئے، مثلا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، صحابیات رضی اللہ تعالی عنہم اور اللہ  ، رسول ﷺ کے متعلق آنے لگے۔ اور جب بھی میں اپنی بیوی کے قریب جاتا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میں (نعوذباللہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قریب جاتاہوں۔ اور دن بدن یہ خیالات بڑھتے چلے گئے ۔ اور میں اپنے آپ کو غیر مسلم سمجھنے لگا۔ اور میں نے اپنی بیوی کے پاس جانا چھوڑدیا کیونکہ گندے وسوسوں کی وجہ سے میرے ذہن میں ڈرتھا کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ زنا کرتاہوں۔ وسوسوں کی وجہ سے میرا ذہنی توازن بھی خراب ہونا شروع ہوگیا۔ اور میرا ذہنی توازن زیادہ دیر تک خراب نہیں رہتاتھا۔ کبھی کبھار دورہ پڑتاتھا، دورے کے دوران مجھے پتا نہیں چلتا تھا میں اپنی ماں، بیوی ، بچوں اور بہن ،بھائیوں کو مارتاتھا حتی کہ اپنے آپ کو بھی مارنے کی کوشش کرتا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد میرے دورے کی حالت ٹھیک ہوجاتی ۔ میرے اس بیماری کی وجہ سے میں فیصل آباد میں ڈاکٹر *** کے ہسپتال میں زیر علاج ہوگیا، چھ ماہ تک میں میڈیسن کھاتارہا اور اب بھی میں زیر علاج ہوں۔

محترم! جس  دن میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی اس دن میری حالت کچھ یوں تھی” کہ میں اپنے آپ کو مکمل ٹھیک محسوس کررہاتھا، لیکن میرے ذہن میں گندے وسوسے ویسے ہی تھے اور اب بھی ہیں لیکن میری بیوی نے مجھے مکمل پاگل سمجھا تھا جبکہ ایسی بات نہیں ہے ۔ میں نے اپنی بیوی کو مکمل ہوش وحواس میں یہ ذہن میں رکھ کر طلاق دی تھی کہ میں غیر مسلم ہوں اورمیں اپنی بیوی سے زنا کرتاہوں اور اسی وجہ سے میں نے اپنی بیوی کو طلاق  7 بار طلا ق دے دی۔

محترم قران وحدیث کی روشنی میں مجھے بتائیں کہ یہ طلاق واقع ہوئی ہے  کہ نہیں؟

والدِ*** کا بیان

جناب والا  گزارش ہے بندہ ناچیز کا لڑکا*** کی شادی کو عرصہ  چار سال ہوگئے ہیں ۔ ایک لڑکی جسکی عمر تقریبا دوسال ہونے کو ہے، دوسرا بچہ  دس ، پندرہ دنوں میں ہونے والا ہے۔ آج سے تقریبا تین سال یا کچھ ماہ اوپر زوجین میں بہت اچھے گزرے ہیں ۔

ہو ا یوں: ڈھائی سال پہلے میرے لڑکے***پر ہرنی کا اپریشن ہوا جس  میں ڈاکٹر صاحب نے  چار، پانچ ماہ آرام کرنے کو کہا، جب کہ ****  شوگر ملز میں ویلڈر کی حیثیت سے نوکری کررہا تھا۔ڈاکٹر کے کہنے پر کہ اس کو مکمل چار ،پانچ ماہ آرام ہونا چاہیے تو نوکری کرنا چھوڑدی،**** نے کہا میں اب فارغ ہوں تو میں چالیس دن تبلیغ میں ایک چلہ لگا آؤں ، میں نے اجازت دے دی ، بیوی نے بھی بڑی خوشی سے اجازت  دی ، تبلیغ میں دل لگ گیا تو چار ماہ کا ارادہ کرلیا، تین چلہ بہت اچھے لگے فون پر رابطہ رہا،میرادل لگا ہوا۔ چوتھے ماہ سرحد ضلع بونیر میں تشکیل ہوئی ۔ وہاں سے فون آیا کہ میں  بیمارہوں پتہ نہیں مجھے برے برے وساوس آرہے ہیں ۔ اب میں کیا کروں فون پر تسلی دی ، مگر چند دنوں بعد یوں فون آیا یہ میرے وسوسے بڑھتے چلے جارہے ہیں، میں نے کہا کہ واپس آجاؤ تو  امیر نے رائیونڈ واپس بھیج دیا، چھوٹا بھائی وہاں گیا سمجھایا کہ چار ماہ پورے کیے واپس گھر آگیا، مگر طبیعت بڑھتی گئی بزرگوں کے پاس گئے االلہ  اللہ کروائی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ، وسوے کیا تھے ” میں مرتد ہوگیا ہوں، رسول اکرم ﷺ کے متعلق، خدا کریم کے متعلق، ازواج مطہرات کے متعلق ، اصحاب رسول اکرم ﷺ کے متعلق  کے سب جھوٹے ہیں،  (نعوذباللہ ) امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق برے خیال ذہن میں آتے ہیں جو کہ میں بندہ لکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا،  وغیرہ وغیرہ”۔

حافظ *** اور ان کے خلیفہ مولانا *** ، مولانا محمد۔۔۔۔نے تقریبا ً 8۔9 گھنٹے اپنے پاس رکھا، فرمایا یہ وسوسے جو آپ یعنی **** کو آرہے ہیں اس سے نہ آپ کو کوئی گناہ ہے اور نہ ثواب، یہ وسوسے ہر آدمی کو آتے ہیں ، ہمیں بھی آتے ہیں ، اس سے نہ آپ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، نہ آپ کا کوئی  گناہ ہے، ذرا اپنے ذہن کو بدلیں، کچھ وظیفے بھی بتائے، جو کرتا رہے، نہ آپ کو کوئی جن بھوت نہ جادو ہے۔

پیشہ ور عاملوں کے پاس بھی جاتے رہتے انہوں نے اپنی اپنی بولیاں بولیں مگر کوئی فرق نہ پڑا، پھر***حضرت ۔۔۔۔کے پاس دو دفعہ گئے ، کئی کئی گھنٹے انہوں نے اپنے پاس سمجھا یا کہ کوئی بات نہیں یہ وسوسے آتے رہتے ہیں انہوں نے بھی کچھ وظیفے تعویز وغیرہ دیے، مگر **** کا ذہن صحیح نہ ہوا۔

پھر فیصل آباد ڈاکٹر **** کے پاس گئے جو کہ دماغی نفسیاتی منشیات ماہر ڈاکٹر ہے، انہوں نے ڈیریشن کا مریض بتایا، تقریا  چھ ماہ ہوگئے ہیں زیر علاج ہے ، ٹیکہ پندرہ دن بعد لگتا ہے اور دوائی مسلسل لے رہا ہے کافی فرق پڑا ہے ، کبھی دوران دوائی استعمال کے دورہ پڑجاتاہے۔لیکن ڈاکٹر صاحب فرماتے  کہ ایسا ہوجاتا ہے لیکن دوائی نہیں چھوڑنی، دوائی میں غنودگی بہت زیادہ ہے جبکہ ڈاکٹر فرماتے ہیں نیند بہت زیادہ آتی ہے انہیں اٹھانا نہیں ، جبکہ ****  کو بیماری کا حملہ ہوتاہےتو  نہ تو اس کو اپنی بیوی کی، نہ ماں کی نہ باپ کی نہ اپنی معصوم بچی کی نہ بہن ،بھائی کی تمیز ہوتی ہے جومنہ میں آئے کہے جاتا ہے ، جب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اس کی کیفیت وہ نہیں جو آج سے 8۔9  ماہ پہلے تھی ، آج تقریبا 20۔25 دن  پہلے دورہ پڑا تو ما ں کو مارا اپنی معصوم بچی کا گلہ دبایا۔ بھائی کو دانتوں سے زخمی کیا۔ بیوی پاس سے گزری تو اس کو کہا میں  آپ کو کہتاہوں طلاق لینا چاہتی ہے لے لے یہ دودفعہ  طلاق کے لفظ کہے۔۔۔یہ کیفیت چار ،پانچ دن رہی ۔ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے دوائی دی ٹھیک ہوگیا۔ پھر ا**** نے کہا میں نے بیوی کو طلاق دی ہے ۔ اس کا کہنا یہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طلاق نہیں ہوتی ۔ لیکن **** کا وہم دورنہ ہوا باربار علماء کے پاس کے خود بھی جاتے ۔ سب نے کہاں کہ طلاق نہیں ہوئی ۔

اس دفعہ کہ پانچ ، چھ دن ہی یہ واقعہ ہوا۔ جب شام اور عشاء کے درمیان **** کی امی اور میاں بیوی بیٹھیں ہیں اور والدہ ان کو سمجھا رہی ہے۔ میں **** کا والد موجود نہیں ۔  تینوں کی آپسمیں اس گفتگو پر باتیں ہورہی تھیں کہ **** کی بیوی طیش میں آئی  وہ برے بھلے الفاظ کہنے شروع کردیے ۔ **** ۔۔۔۔۔سارے خاندان کو بھی***۔۔۔جس پر*** نے کہا کے پہلے جو کچھ ہوا سو ہوا اب میں آپ کو ساری طلاق دیتاہوں  جاناچاہئے توجاسکتی ہے۔ *** کی بیوی  نے اپنی والدہ یعنی ساس سے بچی زبردستی چھین کرلے گئی۔ ساتھ ہمارے گندا کنواں ہے اس میں خود کشی کرنی تھی ، میری دوسری بہو نے پکڑا، میرا ایک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب حضرت والا گزارش یہ ہے کہ میرا لڑکا زیر علاج ہے اور ایک ڈاکٹر سے بھی مشورہ کیا ہے جوکہ ماہر نفسیات ہیں انہوں نے بھی یہ کہا ہے کہ علاج بالکل صحیح ہورہا ہے لیکن مزیدچھ ماہ اور علاج رکھیں۔۔ میں **** کا والد ہوں۔ آٹھ ، نو ماہ سے اب تک مجھ کو اپنے لڑکے کو تسلی نہیں صحیح حالت ہے بلکہ میرے گھر کے کسی فرد کو تسلی نہ ہے گزارش ہے کہ ۔۔۔۔۔۔اس وقت اس کے ذہنی کیفیت کیا تھی جبکہ **** کا کہنا ہے کہ میں بالکل صحیح تھا۔ میں بندہ والد **** اس وقت موجود نہ تھا جب  کام ہوچکا ایک گھنٹہ بعد آیا  تو **** کی کیفیت کو دیکھا اپنے کیے پر نادم تھا لیکن والد کی حیثیت سے کہ اپنی اولاد کی کیفیت جانتاہے محسوس کیا اس پر بیماری کا کچھ اثر ہے جبکہ ڈاکٹر فرماتے ہیں ۔ تھوڑی سی  پریشانی پر بھی اس کو اثر ہوسکتاہے۔

اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ بچی کے اہل خانہ بھی بھی یہ کہتے ہیں  ہماری بچی  اس کے گھر آباد ہو اور ۔۔۔شرعا جواز کے ساتھ اور خواہش ہے یہ گھر آباد ہو ۔ میں والد **** نے اپنی بہو کو بہو کا رتبہ  نہیں دیا بلکہ اپنی دو بیٹیوں سے بھی زیادہ بیٹی کا پیاردیا ہے جس کی وہ معترف ہے میں کبھی کبھی  اپنی بہو کو بازار جاتے ہوئے کہتا بیٹا تم بھی اپنی خواہش کی کوئی چیز منگوالیا کرو تو کہتی   بغیر کہے کے ہر چیز مل جاتی ہے  تو کیا کہوں ۔میرا گھر الحمدللہ دیندار گھر ہے اور میں نے اپنی اولاد کی اس گئے گزرے دور میں رزق حلال سے پرورش کی  اورا الحمد للہ میر ا ہر فرد تقریبا نمازی ہے۔ یہ کام بھی میں نے اللہ کی رضا پر چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ اس کا بہتر حل نکالے گا۔ مجھے اللہ  پر بڑی امید ہے۔ اور میری بیوی بھی ہر وقت اللہ کے ہاں سجدہ ریزہے کہ اللہ اس کا بہتر حل نکال دے۔

میں آپ سے بھی امید کرتاہوں  یتیم بچی ایک بھائی وہ بھی مریض ہے خود اپنے پر ترس کھاتے شرعا تو جواز گھر۔۔۔۔۔نکل آئے ، جبکہ میں والد  **** اسکی دماغی حالت  پر مطمئن نہیں۔ بچی کے اخراجات میرے لڑکے **** کے ٹھیک ہونے تک احسن طریقہ سرانجام دونگا جبکہ یہی بچی اس بات کی معترف ہے۔

یہ سارا معاملہ اللہ پر چھوڑتاہوں۔ بعدمیں آپ والا کے فیصلے شرعی پر متفق ہوں گا۔

بیوی کا بیان

ہماری زندگی کے دوسال تو انتہائی اچھے گزرے لیکن دوسال کے بعد انہوں نے تبلیغ کرنے کی سوچی اور تبلیغ پر چلے گئے اور وہاں جاکر 4 ماہ کا چلہ کرنے لگے ۔2 ماہ تو ٹھیک رہے  لیکن آخری  2 ماہ میں ان کی  طبیعت بہت خراب رہنے لگی۔ ان کا ذہنی توازن بہت خراب ہوگیا پہلے پہل تو انہیں خدا اور رسول کے بارے میں برے برے وسوسے آتے تھے لیکن وہی وسوسے شدت اختیار کرتے گئے اور انہوں نے سرعام (نعوذباللہ) خدا اور رسول ﷺ کو گالیاں دینے لگے اور مجھے کہتے تھے کے (نعوذباللہ) تم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ جیسی لگتی ہو۔ اگر میں ان کے ساتھ چلتی تو مجھے کہتے کہ ایسا لگتاہے جیسے حضرت عائشہ میرے ساتھ چل رہی ہے اور ان کی حالت دور کی شکل اختیار کرتی گئی انہوں نے مجھے مارنا   پیٹنا اور گالیاں دینا شروع کی صرف مجھے ہی نہیں بلکہ اپنے تمام گھر والوں کو مارنے ، پیٹنے اور گھر کی چیزیں توڑتے پھوڑتے اور اپنے آپ کو گالیاں دیتے ،یہاں تک اپنے آپ کو کاٹتے اور دیواروں میں ٹکرئیں مارتے اور اپنے سر کو لہولہان کرلیتے اور اگر کوئی بچہ سامنے آجاتاتو اس کا گلہ دبا دیتے ایک بار اس نے اپنی بچی کو اٹھا کر چارپائی پر زور سے  پٹخ دیا اور پھر اس کا گلہ دبانے لگے ہم تین چار لوگوں نے مل کر اس کو قابو کیا اور بچی کو چھوڑ وایا کبھی دروازہ کھول کرباہر بھاگ جاتے اور قبرستان چلے جاتے وہاں جاکر مٹی اکھاڑتے اور اپنے سر میں ڈالتے ۔ ایک دن وہ کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے میں اندر گئی تو مجھ پر برس پڑے اور کہنے لگے "چلی جا میں میرے گھر سے  میں تجھے طلاق دیتاہوں ، جا طلاق دی ” ابھی وہ دوسری بار کہہ رہے تھے کہ میں کمرے سے بھاگ گئی ،ہم گھروالے پریشان ہوئے، مولوی صاحب کے پاس گئے انہیں ساری حقیقت  بتائی تو انہوں نے کہا کہ  ایک تو وہ پاگل ہے اور دوسرا ابھی بچی حمل سے ہے اس طرح طلاق نہیں ہوتی  اور پاگل مرد کے کہنے سے بالکل طلاق نہیں ہوتی ، بے شک وہ تین بار بھی کہہ دیتا۔

ہم اس کا ***ہسپتال سے ڈاکٹر ***سے علاج کروارہے ہیں اور ابھی تک وہ زیر علاج ہیں انہیں   بھی ساری حقیقت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے تو اس کو  ٹوٹلی پاگلی قراردیا ، انہوں نے کہا کہ ہم اس کا علاج کررہے ہیں شفا دینے والی خداکی ذات ہے۔ انہوں نے بھی یہ ہی بولا کہ اس کے طلاق دینے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے دماغ پر ہر وقت میڈیسن کا اثر رہتاہے ہم چھ ماہ سے ڈاکٹر کا علاج کروارہے ہیں اور ابھی تک کوئی افاقہ نہیں ہوا میڈیسن دینے سے وہ زیادہ تر سوئے رہتے ہیں ، میڈیسن کا اثر ختم ہوتاہے تو پھر ویسے ہی ہوجاتے ہیں۔ میں اس دوران بہت پریشان رہنے لگی کہ اگلی زندگی کیسے گزرے گی میری ایک سال کی بچی ہے اور 8 ماہ کا حمل بھی ہے  اگر یہ ٹھیک نہ ہوئے تو کیا ہوگا۔

جس دن یہ واقعہ رونما ہوا ، جناب عالی،صبح ناشتہ کے بعد میں اپنے کمرے میں لیٹ گئی تو میری ساس نے کہا کہ رات کو کیا کرتی رہی  ہو جو لیٹ گئی ہو ، میں وہاں سے اٹھی اور کپڑے سلائی کرنے لگی۔ اس کے بعد میری ساس  دیور اور میرے میاں  ایک دوسرے سے باتوں باتوں میں لڑنے لگے ، تقریبا ایک گھنٹہ تک لڑتے جگھڑتے رہے ، اس طرح لڑتے دیکھ کر میں نے کہا کہ میرے خاوند کے ساتھ کیا تکرار  کررہے ہو میرے میاں کی طبیعت تو پہلے سے ہی خراب ہے  انہیں آرام کرنے دو، اس بات پر پھر تکرار ہونے لگی ،تم زیادہ خیرخواہ ہو اس کے بعدمیں نے پریشانی میں ساس سے کہا کہ دوپہر کا وقت ہے اب آپ خاموش ہوجائیں ، میاں صاحب کبھی اندر کبھی باہر گھومتے رہے اور کبھی لیٹ جاتے، اسی طرح سارا دن تکرار کے بعد ان کی طبیعت کا فی حد تک خراب ہوچکی تھی اور وہ بہکی بہکی ہوئی باتیں کرنے لگے ،اس وقت شام ہونے کو تھی میں نے کھانا وغیرہ بنایا، اور انہوں نے پھر تکرار شروع کردی، ساس اور میرے میاں آپس میں ایک دوسرے کو کہنے لگے، اس کے بعد میرے طرف پلٹ گئے ، میں نے صرف یہ کہا کہ کھانا کھالو مجھے کہنے لگے کہ میں نے تمہیں پہلے بھی طلاق دی تھی  اور  کتنی بار چاہیے، میں تمہیں اور طلاق دے دیتاہوں ،بالکل  بہکی بہکی سی باتیں کرنے لگے۔ ساس پھر  برا بھلا کہنے لگی اس کے بعد اس نے مجھے کہا کہ ” جاؤ جتنی طلاقیں لینی  چاہتی ہو میں تمہیں دیتاہوں ” اور پھر تقریبا 6۔7 مرتبہ اس نے طلاق کا لفظ استعمال کیا، اس وقت ان کی  کیفیت بالکل پاگلوں جیسی تھی اور ذہنی طور پر فٹ نہیں تھے ، اس کے بعد میں رونے لگی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں والد، بیوی اور شوہر کے ذکر کردہ حالات وبیانات سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ طلاق دیتے وقت شوہر کا دماغی توازن درست نہیں تھا۔ لہذا ایسی حالت میں دی گئیں طلاقیں واقع نہیں ۔ اور سابقہ نکاح برقرار ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved