استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قبلہ مفتی صاحب
اگر کسی کی نمازیں باقی ہیں وہ ادا نہیں کر سکتا تو اس کا فدیہ کیا ہے ؟
الجواب ۔ میت کی عمر معلوم کر کے اِس میں سے نوسال عورت کیلئے اور بارہ سال مَرد کیلئے نابالِغی کے نکال دیجئے ۔ باقی جتنے سال بچے ان میں حساب لگائیے کہ کتنی مدّت تک وہ (یعنی مرحوم) بے نَمازی رہا یا بے روزہ رہا، یا کتنی نَمازیں یا روزے اس کے ذمّے قضا کے باقی ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ اندازہ لگالیجئے بلکہ چاہیں تو نابالِغی کی عمر کے بعد بقیّہ تمام عمر کا حساب لگا لیجئے ۔ اب فی نَماز ایک ایک صَدَقۂ فِطر خیرات کیجئے ۔ ایک صَدَقۂ فِطر کی مقدار 2کلو سے 80گرام کم گیہوں یا اس کا آٹا یا اس کی رقم ہے ۔ اور ایک دن کی چھ نَمازیں ہیں پانچ فرض اور ایک وتر واجب ۔ مَثَلاً 2کلو سے 80گرام کم گیہوں کی رقم 12روپے ہو تو ایک دن کی نمازوں کے 72 روپے ہوئے اور30دن کے 2160روپے اور بارہ ماہ کے تقریباً 25920روپے ہوئے ۔ اب کسی میِّت پر50 سال کی نَمازیں باقی ہیں تو فِدیہ ادا کرنے کیلئے 1296000روپے خیرات کرنے ہوں گے ۔
ظاہِر ہے ہر شخص اِتنی رقم خیرات کرنے کی اِستِطاعت( طاقت) نہیں رکھتا، اِس کیلئے عُلمائے کرام رَحمَہُمُ اللہُ السلام نے شَرعی حِیلہ ارشاد فر مایا ہے ۔ مَثَلاً وہ30دن کی تمام نَمازوں کے فدیے کی نیّت سے 2160 روپے کسی فقیر ( فقیر اور مسکین کی تعریف صفحہ نمبر24 پر مُلاحَظہ فرمائیے ) کی مِلک کردے ، یہ30دن کی نَمازوں کا فِدیہ ادا ہو گیا ۔ اب وہ فقیر یہ رقم دینے والے ہی کو ہِبَہ کر دے ( یعنی تحفے میں دیدے ) یہ قبضہ کرنے کے بعد پھر فقیرکو 30 دن کی نَمازوں کے فِدیے کی نیّت سے قبضہ میں دے کر اس کا مالِک بنا دے ۔ اسی طرح لَوٹ پھیر کرتے رہیں یوں ساری نَمازوں کا فِدیہ ادا ہو جائے گا ۔ 30 دن کی رقم کے ذَرِیعے ہی حیلہ کرنا شَرط نہیں وہ تو سمجھانے کیلئے مِثال دی ہے ۔ باِلفرض 50سال کے فِدیوں کی رقم موجود ہو تو ایک ہی بارلَوٹ پھیر کرنے میں کام ہوجائے گا ۔ نیز فِطرے کی رقم کا حساب گیہوں کے موجودہ بھاؤسے لگانا ہوگا ۔ اِسی طرح فی روزہ بھی ایک صَدَقۂ فطر ہے ۔ نَمازوں کا فِدیہ ادا کرنے کے بعد روزوں کا بھی اِسی طریقے سے فِدیہ ادا کر سکتے ہیں ۔ غریب و امیر سبھی فِدیے کا حیلہ کر سکتے ہیں ۔ اگر وُرَثا اپنے مرحُومِین کیلئے یہ عمل کریں تو یہ میِّت کی زبر دست امداد ہو گی، اِس طرح مرنے والا بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرض کے بوجھ سے آزاد ہو گا اور وُرَثا بھی اَجرو ثواب کے مُستحق ہوں گے ۔ بعض لوگ مسجِد وغیرہ میں ایک قراٰنِ پاک کانُسخہ دے کر اپنے من کو منا لیتے ہیں کہ ہم نے مرحوم کی تمام نَمازوں کا فِدیہ ادا کر دیا یہ ان کی غَلَط فَہمی ہے ۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۱۶۷) یادرکھئے !مرحوم کی نمازوں کا فدیہ اولاداوردیگر وُرثا کی طرح کوئی عام مسلمان بھی دے سکتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب
جواب عنایت فرمائیں کہ یہ جائز ہے یا نا جائز؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ تحریر میں جس طریقے سے فدیہ اداکرنا تجویز کیا گیا ہے اسے حیلہ اسقاط کہتے ہیں یعنی میت کے ذمے سے نمازیں ساقط کرنے کا حیلہ بعض فقہاء نے جو حیلہ اسقاط کی اجازت دی ہے وہ اس وقت ہے کہ جب اتفاقاً کسی آدمی کے لیے ضرورت پڑ جائے کہ اتفاق سے اس کے کچھ روزہ نماز رہ جائے اور اس کو قضا ء کا موقع نہ ملے اور موت کے وقت وصیت کر لے ،لیکن اس کے ترکہ میں اتنا مال نہیں جس سے تمام فوت شدہ نماز اور روزوں کا فدیہ ادا کیا جاسکے یہ نہیں کہ اس کے ترکہ میں مال موجود ہو اس کو تو وارث بانٹ لیں اور تھوڑے سے پیسے لیکر یہ حیلہ کرکے خدا اور خلق کو دھوکا دیں ۔ یہ بھی اس وقت جائز ہے جبکہ اس سے عوام کا عقیدہ خراب نہ ہو اور رسم بدعت کی صورت اختیار نہ کرے ورنہ اس کو ترک کرنا ضروری ہو جاتا ہے جیسا کہ ہمارے زمانے میں اس میں طرح طرح کے منکر ات پیدا ہو گئے ہیں ، اولا تملیک فقراء اس طرح کی جاتی ہے کہ اس سے تملیک متحقق نہیں ہوتی ،ثانیا لوگوں نے اس کا ایسا التزام کرلیا ہے کہ اس کو اعمالِ تجہیز و تلقین میں سے ایک مستقل عمل سمجھتے ہیں جو یقینا بدعت ہے۔
رسائل ابن عابدین(1/225) میں ہے:
ويجب الاحتراز من أن يديرها أجنبي إلا بوكالة كما ذكرنا وأن يكون الوصي أو الوارث كما علمت ويجب الاحتراز من أن يلاحظ الوصي عند دفع الصرة للفقير ملاحظا أن الفقير إذا أبى عن هبتها إلى الوصي كان له ذلك ولا يجبر على الهبة.
© Copyright 2024, All Rights Reserved