• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کرسی پرنماز سے متعلق دارالعلوم کراچی کے فتوے کاجواب

استفتاء

حضرات مفتیان کرام دارالافتاء والتحقیق جامعہ دارالتقوی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بندہ کا تعلق علماء کے طبقہ سے ہے، بندہ آپ حضرات کی توجہ ایک اہم مسئلہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے جو بعض علماء اور عوام میں خلجان کا سبب بن رہا ہے ۔

مسئلہ یہ ہے کہ آپ حضرات کے دارالافتاء سے رکوع سجدے سے معذور شخص کےنماز پڑھنے کے طریقے سے متعلق ایک فتوی پمفلٹ /اسٹیکر کی شکل میں مختلف مساجد وغیرہ میں دیکھنے کو ملا ہے ،آپ کے اس فتوے میں ایک شق یہ  درج ہے

’’ کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے بجائے آپ بیٹھ کر نماز شروع کیجئے یہ کھڑے ہونے سے زیادہ بہتر ہے‘‘

جبکہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے مفتیان کرام کی طرف سے جاری کردہ ایک فتوی سوشل میڈیا پر گردش میں ہے جس میں آپ حضرات کی ذکر کر دہ شق کے برخلاف یہ مذکور ہے

’’’ کہ جو شخص زمین پر سر ٹکا کر سجدہ کرنے سے معذور ہو لیکن قیام پر قادر ہو ،اسے چاہیے کہ وہ قرات باقاعدہ کھڑے ہوکر کرےالخ

اس فتوی میں ’’ چاہیے کہ وہ قراءت باقاعدہ کھڑے ہوکر کرے ‘‘ کے الفاظ آپ حضرات کےفتوے کے خلاف ہیں ۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کا مکمل فتوی اور اس کے دلائل ساتھ لف ہیں جبکہ آپ کے فتوے میں دلائل کا تذکرہ نہیں ،آپ حضرات سے گذارش ہے کہ اگرآپ حضرات کو جامعہ دارالعلوم کراچی کے فتوے سے اتفاق ہے تو آئندہ کے لئے اپنے جاری کردہ فتوے میں تصحیح کردیں اور اگر اختلاف ہے تو اپنے دلائل اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے فتوے میں مذکورہ دلائل کا جواب ذکر کر دیں   تاکہ اہل علم اس میں غور کرسکیں۔ واجر کم علی اللہ ،یکے ازخادمان اہل علم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہماراموقف ابھی بھی وہی ہے جو ہمارے سابقہ فتوے میں مذکور ہے:یعنی ’’ سجدے سے معذور شخص  اگرکھڑا ہونے پر قادر بھی ہو تو پھر بھی اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ نماز بیٹھ کر شروع کرے‘‘اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جو شخص سجدے سے معذور ہو لیکن کھڑے ہونے پر قادر ہو تو وہ شخص نماز کیسے پڑھے گا؟ اس بارے میں کتب فقہ میں دو قول ملتے ہیں:

  1. ایسے شخص کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے البتہ اگر ایسا شخص کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ یہ ظاہرالروایۃ ہے یعنی امام ابوحنیفہ ؒ،امام ابویوسف ؒاورامام محمدؒ کاقول ہےاور راجح ہے۔
  2. ایسا شخص قیام کے وقت قیام کرے گا اور اس کے لئے قیام کرنا فرض ہے ۔یہ موقف امام زفر رحمۃ اللہ علیہ و ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک ،امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا ہے اور ظاہرالروایہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے مر جوح ہے۔اگرچہ محقق ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے قول (یعنی قیام کے بجائے بیٹھ کرنماز پڑھنا افضل ہےاس)پر کچھ اعتراضات کیےہیں لیکن علامہ حلبی رحمۃ اللہ علیہ نےشرح منیہ میں ان کا جواب دیا ہے ۔مذکورہ بالاتفصیل فتاوی شامی کی مندرجہ ذیل عبارت سے واضح ہے۔ فتاوی شامی (2/164)میں ہے:

فلو قدر عليه دون السجود ندب إيماؤه قاعداالخ قال الشامي تحت قوله (قلوقدرعليه) أي على القيام وحده أو مع الركوع كما في المنية  قوله ( ندب إيماؤه قاعدا ) أي لقربه من السجود وجاز إيماؤه قائما كما في البحر وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة لأن القيام ركن فلا يترك مع القدرة عليه  ولنا أن القيام وسيلة إلى السجود للخرور والسجود أصل لأنه شرع عبادة بلا قيام كسجدة التلاوة والقيام لم يشرع عبادة وحده حتى لو سجد لغير الله تعالى يكفر بخلاف القيام  وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسيلة كالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة  وما أورده ابن الهمام أجاب عنه في شرح المنية

نوٹ:یہ مسئلہ مذکورہ تفصیل کے ساتھ متعدد کتب فقہ میں مذکور ہے لیکن تطویل سے بچنے کےلیے مزید کتب فقہ کی عبارات ذکر نہیں کی گئیں۔

ہم نے اپنے فتوے میں ظاہرالروایہ کو ملحوظ رکھا ہے یعنی بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے اگرچہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی گنجائش ہے ،جبکہ جامعہ دارالعلوم کراچی کےفتوے میں نہ تو ظاہرالروایہ کو لیا گیا ہے کیونکہ اس فتوے میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صرف اجازت دی گئی ہے اسے افضل نہیں کہا گیا ہے اور نہ ہی اس میں دوسرے قول کو لیا گیا ہے کیونکہ دوسرے قول میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کو فرض  کہا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بیٹھ کر نماز جائز ہی نہ ہو جبکہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے  فتوے میں قیام کو فرض نہیں کہا گیا،چنانچہ اسی وجہ سے اگر قیام پر قدرت کے باوجود کوئی شخص  بیٹھ کر نماز پڑھے تو اس کی نماز کو فاسد یا ناجائز نہیں کہا گیا۔

ان حضرات کا یہ فتوی جمادی الاولی :۱۴۳۴ھ کے  ماہنامہ البلاغ میں چھپا تو ہم نے ان حضرات کو خط لکھا کہ آپ حضرات کا جواب نہ تو ظاہر الروایہ کے مطابق معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی ظاہر الروایہ کے بالمقابل قول کے مطابق معلوم ہوتا ہے بلکہ ایک نیا قول معلوم ہوتا ہے، ہمارےاس خط کا جواب یہ آیا :

’’حضرت والا(حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب)مدظلہم العالی نے اپنا فتوی ظاہر روایت کے مطابق دیا ہے،اس لیے کہ ترک قیام پر فساد نماز کاحکم نہیں لگایا، البتہ خروج عن الخلاف کے لیے….قادر علی القیام کو عزیمت پر عمل کرنے کا بھی بتاکید مشورہ دیا ہے ۔یعنی ایسی صورت میں اگر مذکور معذور عزیمت پر عمل کر کے قیام کرے تو افضل، احوط، اور بہتر ہے ۔۔۔۔۔اور عزیمت پر عمل کرنے کا یہ مشورہ دینا نہ تو ظاہر الروایہ سے عدول ہے اور نہ ہی ظاہرالروایہ کے خلاف ہے، کیونکہ ظاہرالروایہ کا حاصل تو صرف یہ ہے کہ ترک  قیام کی رخصت ہے‘‘

اس خط سے معلوم ہوا کہ ان حضرات نے ظاہرالروایہ ہی کو لیا ہے لیکن خروج عن الخلاف کے لیے  تھوڑی سی تبدیلی کی ہے، حالانکہ خروج عن الخلاف کے لیے ایسی صورت تجویز کی جاتی ہے جس سے دونوں قولوں پر عمل بھی ہو جائے اوردونوں قولوں کی فقہی حیثیت بھی اپنی اپنی جگہ برقرار رہے ۔جبکہ خروج عن الخلاف کی جو صورت ان حضرات نے اختیار کی ہے وہ ایسی نہیں کہ جس میں دونوں قولوں کی فقہی حیثیت اپنی اپنی جگہ برقرار ہی ہو،بلکہ مذکورہ صورت میں ظاہر الروایہ کی فقہی حیثیت بدل گئی ہے،کیونکہ ظاہر الروایہ میں ترک قیام یعنی قعود کوافضل کہا گیا ہے اور قیام کی رخصت دی گئی ہے۔ جبکہ ان حضرات کے فتوے میں قیام کو (جس کی صرف رخصت تھی)افضل،احوط اور بہتر کہا گیا ہے اورقعود (جو کہ افضل تھا)اس کی صرف رخصت دی گئی ہے،گویا ظاہر الروایہ کا بالکل عکس کردیا۔اوریہ انہوں نے اس لیے کیا کہ ان حضرات نے ظاہر الروایہ کو صرف ترک قیام کی رخصت پر محمول کیا جیسا کہ ان حضرات کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے

’’کیونکہ ظاہر الروایہ کاحاصل تو صرف یہ ہے کہ ترک قیام کی رخصت ہے‘‘

حالانکہ ظاہرالروایہ کا حاصل صرف ترک قیام کی رخصت نہیں بلکہ ترک قیام کا استحباب اورافضلیت ہے۔

پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ  خروج عن الخلاف کی مذکورہ تو جیہ کوئی نئی ہوجس کی طرف صرف ان حضرات کا ذہن گیا ہو، بلکہ علامہ حلبی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح منیۃ میں اسے ذکر بھی کیا ہے مگر  چونکہ یہ توجیہ منقول نہیں تھی اس لیے اسے اختیار نہیں کیا ۔چنانچہ حلبی کبیر( ص:266)میں ہے:

قال الفقير لو قيل ان الايماء قائما افضل للخروج عن الخلاف لکان موجها ولکن ام أر من ذکره

اور علامہ شامی ؒ نے بھی شارح منیہ کی اس توجیہ کو بعینہ انہیں کے الفاظ میں ذکر کرکے کچھ تبصرہ کیےبغیر اسے چھوڑ دیا جو اسے اختیار نہ کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔چنانچہ فتاوی شامی (2/64)میں ہے:

ثم قال (اي شارح المنية)ولوقيل ان الايماء قائما افضل للخروج عن الخلاف لکان موجها ولکن لم أر من ذکره

1۔تنبیہ:یہ تحریر صرف اہل علم کے لیے ہے اوراس کا مقصد صرف اپنے اختلافی نکتے کی اہل علم کے سامنے وضاحت کرنا ہے کسی کی تنقیص ہر گز مقصود نہیں اورنہ یہ تحریر عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

2۔جامعہ دارالعلوم کورنگی کے فتوے میں علامہ ظفر احمد عثمانیؒ کی اعلاء السنن سے اوردیگر کچھ کتابوں سے ایک لمبی بحث نقل کی گئی ہے جس کا خلاصہ مذکورہ شخص کےلیے قیام کی فرضت کوثابت کرنا ہے لیکن چونکہ خود دارالعلوم کے حضرات نے اپنے فتوے میں قیام کی فرضیت والاقول اختیار نہیں کیا بلکہ اپنا فتوی ظاہرالروایہ کے مطابق ہی دیا ہے، اس لیے ہم نے اپنے جواب میں اس بحث سے تعرض نہیں کیا ۔

نوٹ:ہماری طرف سے ان حضرات کو لکھے گئے خط اوراس کے جواب کی کاپی ہمارے دارالافتاء کے ریکارڈ میں موجود ہے۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved