• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

باپ کی زندگی میں جائیداد کے کاغذات قبضہ میں لینا اور آپس میں تقسیم کرنا

استفتاء

*** کے والد محترم ***  کے رہائشی تھے اور وہیں اپنی جائیداد بنائی۔ جو دکان، مکان، پلاٹ بنایا اپنی اہلیہ اور اولاد کے نام پر لگا دیا۔ ( یہ حکومتی ٹیکس وغیرہ سے بچنے کے لیے کیا اس  میں سے ایک بیٹے ***  کے نام جائیداد کا اکثر حصہ اور باقی بیٹوں کے نام تھوڑا حصہ کیا، جبکہ بیٹی کے نام پر کچھ نہ لگایا۔ اس ساری جائیداد کے کاغذات قبضہ میں رکھے۔ باوجود سمجھانے  اور تقاضے کے کسی کو بھی  اس کے نام کی جائیداد کا مالک نہ بنایا۔ اخیر عمر میں جب وہ بہت ضعیف ہوگئے تو راقم انہیں لاہور اپنے پاس لے آیا اور تقریباً دس سال تک خدمت کی سعادت حاصل کی۔ لاہور میں قیام کے دوران ان کی ذہنی یادداشت بے حد کمزور ہوگئی حتی کہ کبھی راقم کو بھی نہیں پہچان پاتے تھے۔ ان کی اس حالت کے مدنظر تمام جائیداد کے کاغذات راقم کے بھائیوں نے اپنی تحویل میں لے لیے۔ راقم کی کوششوں سے تمام بہن بھائی اس بات پر متفق ہو گئے کہ اب جائیداد کو آپس میں تقسیم کر لیا جاوے۔ چونکہ یہ کسی کے نام پر زیادہ اور کسی کے نام پر کم اور کسی کے نام کچھ بھی نہیں  ہے اور والد صاحب نے کسی کو ملکیت بھی نہیں دی ہے اس لیے سب جائیداد کو فروخت کر کے رقم اس طرح تقسیم ہو کہ بھائیوں کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ نسبت سے دیا جائے۔ اس پر سب راضی ہوگئے اور اس معاہدہ کو کاغذ پر لکھ کر سب نے دستخط کر دیئے۔

یہ ساری کاروائی اس خیال  اور نیت سے راقم کی طرف سے کرائی گئی کہ جائیداد میں سب برابر کے شریک ہیں اور سب کو برابر  کا حصہ ملے، کوئی محروم بھی نہ  ہو اور کسی کو کم یا زیادہ حصہ نہ ملے اور جھگڑا نہ ہو۔ ایک بھائی*** جس کے نام پر زیادہ جائیداد تھی ان کی طرف سے خدشہ تھا کہ والدصاحب کی وفات کے بعد وہ دوسروں کو برابر کا حصہ دینے سے انکار کر دیں گے جس پر دوسروں کے ساتھ زیادتی ہوگی اور فساد ہوگا ( یہ خدشہ بعد میں صحیح ثابت ہوا )۔ اس لیے والد صاحب کی زندگی میں ہی جائیداد کی فروخت اور رقم کی تقسیم کا عمل شروع  کر دیا گیا۔ یہ کام خاصا وقت طلب تھا، اس لیے آہستہ آہستہ ہوتا رہا۔ والد صاحب کی حیات کے آخری دنوں میں ہی ایک بھائی عطا یزدانی کی  وفات ہوگئی۔ اس کے نام کی جو جائیداد تھی شروع میں ہی فروخت ہو کر رقسم سب میں تقسیم ہوچکی تھی۔ والد صاحب کا انتقال  ان کے کچھ عرصہ بعد ہوگیا۔ لیکن ابھی جائیداد کا کچھ حصہ فروختگی  اور تقسیم میں باقی ہے۔ والد صاحب نے وفات سے کچھ عرصہ قبل دوسرے بھائیوں کو جس میں *** بھی موجود تھے فرمایا کہ” یہ جائیداد میں سے عطا یزدانی کو بھی برابر کا حصہ دینا”۔

والد صاحب کے انتقال کے بعد صورتحال یہ بنی کہ*** ( جن کے نام  کچھ جائیداد تقسیم ہوچکی  ہے ) نے اب انکار کیا  ہے کہ اب جو میرے نام کی باقی جائیداد ہے وہ میری ہے میں اس کا کسی کو کوئی حصہ نہیں دوں گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ والد صاحب کی وفات کے بعد والدہ کے نام کی جائیداد فروخت ہوئی تو فوت ہونے والے بھائی عطا یزدانی کی اولاد کو حسب معاہدہ بھائی کے حصہ کی رقم دی گئی۔ اس پر بھی *** کو اعتراض ہوا کہ دادے کی جائیداد پوتوں، پوتیوں کو نہیں دی جائے گی، لہذا ان سے رقم واپس لی جائے۔اب جواب طلب امور یہ ہیں:

1۔ اولاد کا والد کی زندگی میں ہی جائیداد کے کاغذات قبضہ  میں لے کر فروخت و تقسیم کرنا کیسا ہے؟ پس منظر واضح کر دیا گیا ہے کہ ذہنی حالت ان کی پسماندہ  ہو چکی تھی اورا ندیشہ تھا کہ ان کے انتقال کے بعد جھگڑے ہوں گے، اس  لیے سب کو برابر کا حصہ مل جائے۔

2۔  دادا کی وراثت پوتوں کو منتقل نہیں ہوتی لیکن جب آپس میں معاہدہ ہو چکا ہو تو ” اوفو بالعقود” کے تحت ان کا حصہ ان کی اولاد کو نہیں دیا جائے گا؟

3۔*** کا یہ  کہنا کہ اب میں اپنے نام کی باقی جائیداد میں سے کسی کو کچھ نہ دوں گا، کیسا ہے؟ دنیاوی قوانین کے تحت  دعوی کو عدالت میں غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ، شرعی طور پر کیسا  ہے؟

اگر وہ اپنے اس کہنے میں قائم رہے اور سمجھانے کے باوجود نہ سمجھے تو ان کے علاوہ کی باقی جائیداد میں سے انہیں  دیا جائے یا نہ؟ جو جائیداد وہ اپنے پاس رکھتے ہیں  اس کی قیمت کے برابر باقی جائیداد میں سے حساب لگا کر اگر کچھ بچے تو انہیں دیا جائے یا کیا کیا جائے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ اولاد کا والد کی زندگی میں ہی جائیداد کو فروخت کر کے تقسیم کرلینا اگر چہ درست نہیں تھا، لیکن اب چونکہ ایسا کیا جا چکا ہے اور سب ورثاء کو ان کے حق کے بقدر حصہ بھی مل گیا ہے ،  اس لیے ٹھیک ہے۔

2۔ پوتے، پوتیوں کو میراث کے طور پر کچھ نہیں ملے گا، لیکن بطور وصیت کے ان کو حصہ دیا جائے گا۔

3۔*** کا یہ کہنا شرعاً غلط ہے۔

ان کے پاس موجود جائیداد ان کے حصہ کے برابر نہیں  ہے تو باقی جائیداد میں سے ان کا حصہ پورا کردیں۔ اور اگر ان کے پاس موجود جائیداد ان کے حصہ کے برابر ہے تو باقی جائیداد میں ان کا حصہ  نہیں بنتا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved