• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوۃ کی ادائیگی کے مصارف

استفتاء

R.L النور انڈسٹریل ایریا میں نیو ٹراسوٹیکل دوائیاں بنانے والی ایک پرائیویٹ کمپنی ہے، جو کہ شراکت (Partnership)کی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔

R.L کی طرف سے ماہانہ ادا کی جانی والی زکوۃ کے مصارف درج ذیل ہیں:

-1            R.L کی طرف سے زکوۃ کا کچھ حصہ قصور میں ایک مدرسہ کو ادا کیا جاتا ہے ،جہاں بچے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں ،R.L کی طرف سے دو، تین مدرسوں کا جائزہ لیا گیا، جائزہ کے بعد معلوم ہوا کہ ایک مدرسہ کے مالی حالات کافی خراب ہیں ،مدرسہ کے پاس بل کی ادائیگی اور کھانے وغیرہ کے لئے کوئی بندوبست نہیں تھا، لہٰذامدرسہ کے حالات صحیح نہ ہونے کی وجہ سے کمپنی کی طرف سے اس مدرسہ کو ہر مہینے زکوۃ کی مد سے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ R.L کی طرف سے اس بات کی تحقیق نہیں کی جاتی کہ مدرسہ والے زکوۃ کو اس کے صحیح مصرف پر خر چ کر رہے ہیں یا نہیں۔

-2            زکوۃ کا دوسرا مصرف جہاں R.L کی طرف سے زکوۃ ادا کی جاتی ہے ،وہ شرکاء کے جاننے والے افراد ہیں ،شرکاء کو ذاتی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جہاں زکوۃ کی ادائیگی کی جارہی ہے وہ مستحق زکوۃ ہیں۔شریک کی طرف سے زکوۃ کے وکیل کو کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ زکوۃ دے دو ،تو زکوۃ کے وکیل استحقاق معلوم کئے بغیر اس جگہ پر زکوۃ اداکر دیتے ہیں۔

-3            R.L کی طرف سے ملازمین کو زکوۃ نہیں دی جاتی ،البتہ فیکٹری کا ایک ملازم کافی غریب ہے اور اس کی والدہ بھی بیمار ہے اس وجہ سے کمپنی کی طرف سے اس ملازم کوہر مہینے زکوۃ کی مد میں سے پیسے دیئے جاتے ہیں،اس لڑکے کو ہر مہینے تنخواہ علیحدہ دی جاتی ہے اور زکوۃ کی مد میں سے پیسے علیحدہ دیئے جاتے ہیں، اس کے علاوہ R.L کی طرف سے کسی ادارے ٹرسٹ ،ہسپتال وغیرہ کو زکوۃ نہیں دی جاتی۔ ایک دفعہ ایک ملازم کی جیب کٹ گئی تھی اس وجہ سے اس ملازم کو زکوۃ کی رقم دے دی گئی لیکن اس کے بارے میں کمپنی کو معلوم تھا کہ اس کی تنخواہ ختم ہو گئی ہے اور اس کے پاس بالکل بھی پیسے نہیں۔

-1           صحیح مصرف پر خرچ کی تحقیق کئے بغیرمدرسہ میںزکوۃ دینا

-2            وکیل کا استحقاق معلوم کئے بغیر زکوۃ کی ادائیگی کرنا

-3            غریب ملازم کو زکوۃ کی مد میں سے پیسے دینا

ان سب صورتوں کا شرعا کیاحکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

-1            اگر مدرسہ اہل حق کا ہو اور منتظمین مدرسہ اہل علم میں سے ہوں تو ایسے مدرسے میں زکوٰۃ دینے کے لیے اس کی تحقیق ضروری نہیں کہ وہ صحیح مصرف پر زکوٰۃ خرچ کرتے ہیں یا نہیں، کیونکہ اہل حق علماء کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ وہ زکوٰۃ کو اس کے صحیح مصرف پر ہی خرچ کرتے ہوں گے۔

-2            جب شرکاء (مؤکلین) کو ذاتی طور پر معلوم ہو کہ جن لوگوں کو زکوٰۃ کی ادائیگی کی جارہی ہے، وہ مستحق زکوٰۃ ہیں تو ایسی صورت میں زکوٰۃ کے وکیل کو استحقاق معلوم کرنے کی ضرورت نہیں۔

(۱)            حاشیہ ابن عابدین (۲/۲۶۹) میں ہے:

وهنا الوکیل إنما یستفید التصرف من الموکل وقد أمره بالدفع إلی فلان فلا یملک الدفع إلی غیره کما لو أوصی لزید بکذا لیس للوصی الدفع إلی غیره فتأمل۔

-3            غریب (مستحق) ملازمین کو زکوٰۃ کی مد میں سے پیسے دینا جائز ہے۔

(۲)         الفتاویٰ الھندیه (۱/۱۸۹) :

ویجوز دفعها إلی من یملک أقل من النصاب وإن کان صحیحا مکتسبا کذا فی الزاهدی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved