- فتوی نمبر: 2-383
- تاریخ: 27 اگست 2009
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
ایک مسئلہ ہے جس کا حل شریعت محمدی آپ کی رائے اور معاونت درکار ہے۔ یہ کہ ایک نکاح 1987 میں والد (وارث) نے کردیا تھا۔ مسمی *** ، لڑکی*** سے انجام پایا۔ لڑکے والوں نے شادی کا مطالبہ کیا تو لڑکی والوں نے کہا دوسال کے بعدرخصتی کردیں گے ۔ دو سال کے بعدپھر ایک سال کی مہلت مانگی ۔ جبکہ سن بلوغت کو تقریبا دس سال گذرچکے تھے ۔ وعدہ سے انحراف کرتے ہوئے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ اب لڑکی والے عدالت سے یہ بیان لڑکی نکاح فسخ کراناطلاق لینا چاہتے ہیں اس بارے میں شریعت محمد ی کیا حکم فرماتی ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: کس بنیا دپر طلاق لینا چاہتے ہیں؟
جواب وضاحت: بلاوجہ طلاق لینا چاہتےہیں۔ دوسال پہلے کہتے تھے آج دیتے ہیں کل دیتے ہیں، ٹال مٹول کررہے تھے۔ اب انہوں نے صاف انکار کردیا ہے ۔ جبکہ لڑکی نے طلاق حاصل کرنے کے لیے کوٹ میں دعوی دائر کردیاہے۔ جبکہ لڑکا عدالت میں حاضر ی نہیں دے رہا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب طلاق لینے یا نکاح فسخ کرانے کی کوئی شرعی وجہ موجود نہیں تو عدالت کو بھی نکاح فسخ کرنے کا اختیا رنہیں ۔ اگر عدالت ایسا کرے گی تو اس کا حکم قابل اعتبار نہ ہوگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved