• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میری بیوی فارغ ہے

استفتاء

میری اپنی زوجہ  سے ذاتی وجوہات کی بناء پر کچھ چپقلش ہوگئی اس کے بعد ذہنی طورپر پریشانی کیوجہ سے میں نے زوجہ کے متعلق اس کی غیر موجودگی میں زبان سے یہ کہا: کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتاہوں کہ ” میری بیوی فارغ ہے”۔

واضح رہے یہ الفاظ ایک دفعہ کہے تھے  اور ٹریفک  کے شور کی وجہ سے کانوں تک آواز نہیں پہنچی۔

واقعہ کی تفصیل

1۔ ایک خاوند اپنی بیوی کے متعلق یہ الفاظ استعمال کرے کہ ” میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتاہوں کہ تو فارغ ہے”۔

2۔ یہ الفاظ جن حالا ت میں کہے گئے اس کی تفصیل یہ ہے۔

جس کی ابتدایوں ہوئی کہ میاں بیوی میں ذاتی وجوہات کی بناء پر چپقلش ہوئی  اور کچھ عرصہ تک چلتی رہی جس سے ذہن  پر کافی دباؤ پڑا، خاوند  بیوی کو اس کے والدین کے گھر چھوڑنے کے لیے  گیا تو دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوگیا کہ میری بیوی لڑائی اور چپقلش کا ذکر والدین سے کر کے مجھے ضرور کوئی اذیت پہنچنے کا سبب بنے گی۔ جیسے ہی وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر رخصت ہوا تو اس وسوسہ میں او ر شدت  پید اہوگئی جس کا اثر یہ ہوا کہ ہر وہ شخص جو اس کی طرف ذرا غور سے دیکھتا تو وہ یہ سمجھنے لگتا کہ یہ شخص میرا دشمن ہے اور میرے سسرال والوں نے ہی اسے میرے پیچھے بھیجا ہے جو کسی بھی وقت مجھے نقصان دے گا او رمیری جان کو ختم کردے گا، ان حالات میں جبکہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ بحفاظت گھر آرہاتھا کہ راستے میں اس نے یہ سوچ کرکہ یہ ساری اذیت مجھے اپنی بیوی  کی طرف سے پہنچ رہی ہے اس لیے  میں” اے اللہ تجھے حاضر وناظر جان کر کہتاہوں کہ میری بیوی فارغ ہے” اوریہ الفاظ دوران سفر ٹریفک کے ہجوم میں اس انداز سے زبان سے نکلے کہ اس کے اپنے کانوں نے  بھی نہیں سنا۔ اس بناء پر وہ کئی ماہ تک اس شک میں مبتلاء رہا کہ  اس نے بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ اب وہ اس کی بیوی نہیں رہی ، جبکہ لڑکی اور  اس کے رشتہ دار، والدین اس واقعے سے لاعلم تھے۔ کئی ماہ بعد خاوند نے بیوی کو فون پر بتایا کہ میں نے تجھے اس وقت ہی جبکہ میں  تجھے تیرے گھر چھوڑکر آیاتھا۔ تجھے فارغ کردیا تھا” اور یہ الفاظ اس نے ایک مرتبہ کہے۔

3۔ دیکھنے والوں نے جو حالات اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں  بتائے ہیں وہ یوں ہیں:

ہر دیکھنے ولا یہ سمجھ رہاتھا کہ اس وقت اپنے صحیح ہوش وحواس میں  نہیں ہے۔ اور اس کی گفتگو سے سب کو یہ اندازہ ہوا حتی کہ وہ اس خوف سےتھا نہ میں  چلا گیا اور بغیر کسی رشتہ دار کے سفر کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ فون کرکے سب کو بلایا اس کے بعد سفر کیا مگر وہ خوف برابر ساتھ تھا حتی کہ یہ حالت تقربیا ایک ماہ تک جاری رہی۔ اسی خوف کی وجہ سے وہ کسی بھی اجنبی کو دیکھتے ہی پریشان ہوکر کریہ کہنےلگ جاتا کہ یہ مجھے ہی کچھ تکلیف دینے کے لیے پھر رہے ہیں۔ اب قدرے ذہن بہتر ہوا ہے۔

 لہذا  ہمیں بتایا جائے کہ اس  تفصیل کے بعد وہ شخص اس بیوی کو اپنے پاس رکھ سکتاہے یا نہیں؟ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اگر ہوئی تو کتنی اور اس صورت میں شریعت کا کیا تقاضا ہے۔ جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

نوٹ: عورت کی تین ماہواریاں گزرنے کے بعد خاوند سے اس کے ہم زلف نے تصدیق کے لیے سوال کیا کہ ” کیا تم اپنی  بیوی کو طلاق دے چکے ہو کیا تینوں طلاقیں دے چکے ہو” تو خاوند نے اس کے جواب میں مجہول سی گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ ہاں جی بس ایسا ہی ہے۔

یادرہے کہ خاوند نے یہ جواب اس لیے دیا کہ وہ اپنی ذاتی معلومات میں یہ سمجھا کہ میری بیوی کو تینوں طلاقیں ہوچکی ہیں۔ تو اب ان تین طلاقوں کو مبہم سے اقرار سے بھی  طلاقیں واقع ہوئیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔صورت مذکورہ میں ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے۔ میاں بیوی آپس کی رضامندی سے نکاح جدید کرسکتے ہیں۔

ويقع(بباقيها) أي باقي الفاظا لكنايات المذكورة ….(البائن إن نواها أو الثنتين وثلاث إن نواه.(شامی، ص:523ج:4)

وبقیة الکنایات إذا نوى بها الطلاق كانت واحدة بائنة. (هدايه ، ص:  374)

وإذاكان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله.(ہدایہ ،ص 399،ج: 2)

2۔عدت کے بعد عورت طلاق کا محل باقی نہیں رہتی اس لیے اقرار سے طلاق واقع نہ ہوئی۔

قال العلامة الشامي قوله (طلقها واحدة ..) عبارة الذخيرة وغيرها طلقها رجعية ثم قال في العدة جعلت هذه الطليقة بائنة أو ثلاثا صح عند أبي حنيفة وقيد بقوله في العدة لأنه بعد ها تصير المرأة أجنبية فلا يمكن جعل طلاقها ثلاثا أو بائنا.(شامی، ص: 527،ج:4)۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved