• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدت ختم ہونے کے بعد طلاق

استفتاء

مؤدبانہ گزارش ہے کہ درجہ بالا صورتحال جوکہ درج کی جارہی ہے وہ اس حل کی طر ف پیش خدمت ہے کہ دونوں فریقین آپس میں صلح چاہتے ہیں جوکہ کچھ ناخوشگوار وجوہات کی بناء پر طلاق جیسے عمل کی طرف گامزن تھی وہ صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص*** جس کی شادی مورخہ 25 دسمبر2005 کو ہوئی تھی اس نے اپنی بیوی*** کو کچھ وجوہات  کی بناء پر مورخہ 19 جون 2008 کو پہلی طلاق  تحریر کی صورت میں بھیجی تھی اس طلاق نامہ کی کاپی اس تحریر کے ساتھ  منسلک ہے۔ لیکن جب*** نے طلاق بھیجی تھی اس وقت اس کی بیوی***حاملہ تھیں اور اس دوران انہوں نے رجوع کے لیے کوشش کرتے ہوئے کچھ شرائط نامے بھی ارسال کیے اور کچھ اس سلسلے میں بھی پیش رفت کی کہ وہ اپنی بیوی کو گھر واپس لے جاسکے۔

لیکن شرائط کچھ اس قسم کی تھیں جو کہ ان کی بیوی کو باقابل قبول تھیں جس کی بناپر وہ واپس  اپنے سسرال تو ناجاسکیں اور اس دوران ان کا بچے کی پیدائش ہوئی اور اس بچے کی پیدائش کے بعد *** نے دوبارہ مورخہ 11 اکتوبر 2008 کو ایک تحریر شدہ طلاق جوکہ  تین دفعہ طلاق، طلاق ،طلاق کے لفظوں پر مبنی تھی ارسال کرتے ہوئے تمام تعلقات کے ختم ہونے کا اعلان کردیا۔

جناب اب گزارش ہے کہ دونوں طلاق نامے  اور تمام اوپر درج بالا صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فتویٰ تحریر شدہ مرہمت فرمائیں کہ صلح کی کوئی صورتحال بن جائے۔بچے  کی تاریخ پیدائش :2008۔9۔27

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں 2008۔6۔19 کو دیئے گئے طلاقنامہ میں مندرجہ  ان الفاظ سے ( اس لیے  میں آپ کو اپنی زوجیت سے فارغ کرتے  ہوئے آج مورخہ 2008۔6۔19 آپ کو طلاق دیتا ہوں آج سے آپ میرے نطفے پر حرام ہیں ، آپ عدت ختم ہونے کے بعد جہاں چاہیں نکاح  ثانی کرسکتی ہیں ، اور مجھے کوئی عذر نہ ہوگا”۔ ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہوگیا ہے اور اس طلاق کے وقت عورت حاملہ تھیں اس لیے  انکی عدت وضع حمل تھی جوکہ 2008۔9۔27 کو وضع حمل کی وجہ سےمکمل ہوگئی ہے ۔اور دوسرا طلاقنامہ 2008۔10۔11 کو لکھا گیا ہے جو کہ عدت کے بعد کازمانہ ہے۔ اس لیے اس طلاق نامے سے عورت کو کوئی طلاق نہیں  ہوئی۔

لہذا مذکورہ صورت میں میاں بیوی چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح  کرسکتے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

طلاق نامہ :                            2008۔06۔19

منکہ*** ولد*** بقائمی ہوش وحواس کی شادی ہمراہ *** مورخہ 25 دسمبر 2005 کو بمطابق شریعت محمدی ہوئی اورایک بیٹا عمر اب تقریبا ڈیڑھ سال ہے پیدا ہوا۔

یہ کہ شادی کے فورا بعد ہی مابین فریقین تعلقات کشیدہ ہوگئے ۔ ***نے متعدد بار اظہار کیا کہ میں اسے پسند نہ ہوں اور نہ ہی وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی جبکہ اس کی شادی میرے ساتھ  زبردستی کی گئی۔ علاوہ ازیں اس کا ہمارے گھر میں دل نہیں لگتا اور اچاٹ رہتااور ہمیشہ اس گھر سے نکلنے کو جی کرتارہتاہے۔

یہ کہ*** ایک خودسر، ہٹ دھرم، ضدی  اور ایک آزاد خیال لڑکی ہے۔ اس نے مجھے ہر ممکن طریقے سے پریشان کیا اور ہر وہ کوشش کرتی رہی جس سے تنگ آکر میں اس کو طلاق دوں۔ تمام افسوس ناک اور شرمناک حالات وواقعات کا یہاں  ذکر کرنا پورے خاندان کی تذلیل ہوگی جس سے میں گریز کرتاہوں۔

نتیجت*** ایک دفعہ مجھ سے ناراض ہوکر بغیر میری اجازت مورخہ ۴ اپریل ۲۰۰۷  کو اپنے گھر لاہور چلی گئی اور تقریبا 8 ماہ وہاں بیٹھی رہی اس کے بعد معززین خاندان کی مداخلت سے وہ دوبارہ میرے گھر آباد ہوئی ۔ میں اور میرے خاندان والے اللہ کے خوف کی خاطر اس کی تمام سنگین غلطیاں معاف کرتے رہے اور میں ہر ممکن طریقے سے اسے سمجھاتارہا اور ہر لحاظ سے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتارہا لیکن ہر کوشش بے کار ہوئی اور*** نے میرے گھر کو اپنا گھر نہ سمجھا اور بلا آخر مورخہ 2008۔4۔22 کو ایک غیر محرم نوجوان آدمی جو کہ لاہور سے گاڑی لے کر آیا ہواتھا اس کے ساتھ فرار ہونے کی کوشش کی مگر بروقت میری والدہ نے اسے دیکھ لیا اور پکڑکر اسے واپس گھر لے آئی اور بعدازاں بغیراجازت وہ اپنی والدہ کے ہمراہ لاہور چلی گئی اس کے بعد حالات زیادہ کشیدہ ہوگئے لیکن پھر بھی اللہ کے خوف سے ڈرتے ہوئے میرے والد کی گزارش پر  معززین خاندان نے مداخلت کی اور***کو گھر واپس لاکر آبا دکرنے کی کوشش کی جو*** کی ہٹ دھرمی اور مسلسل انکاری سے بے سود رہی بلکہ دھمکیاں آنی شروع ہوگئیں۔

لہذا آپ کی میرے ساتھ ازدواجی زندگی سے علیحدہ ہونے کی خواہش کو مدنظر رکھتےہوئے اور تمام حالات کا جائزہ لیتےہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ اور میں اندر حدود خداندی نبھانہ کرسکتےہیں۔”اس لیے میں آپ کو اپنی زوجیت سے فارغ کرتے ہوئے آج مورخہ 2008۔6۔19 آپ کو طلاق دیتاہوں۔ آج سے آپ میرے نطفے پر حرام ہیں آپ عدت کی مدت ختم ہونے کے بعد جہاں چاہیں نکاح ثانی کرسکتی ہیں۔ اور مجھے کوئی عذرنہ ہوگا”۔

لہذا طلاق نامہ ہذا تحریر وتکمیل کردیاہے تاکہ بوقت ضرورت کام آوے اور اس کی ایک نقل باضابطہ طور پر آپ کے حلقہ کے ناظم کو بھجوائی جارہی ہے۔

طلاق نامہ         11اکتوبر 2008

منکہ*** ولد*** ساکن  **** بقائمی ہوش وحواس کی شادی ہمراہ*** کواس کی خواہش اور اس کی طرف سے چند نازیبہ اور فحش حرکات کے سبب مورخہ 2008۔6۔19  کوا یک طلاق دی۔

باوجود تمہارے ذلت آمیزاقدامات جو ایک غیر ت مند اور خوددار شوہر کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے  میں نے بڑی وسیع النظری ، جذبہ انسانیت اور اللہ کے خوف سے ڈرتے ہوئے بذریہ معززین خاندان اور بوساطت نیک ثالثی *** صاحب ساہوواڑی چند حقائق پر مبنی شرائط ارسال کردہ 2008۔7۔22***  کے ساتھ دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرنے کی  طرف قدم بڑھایا اور رجوع کیا اور اس کو معاف کرکے اپنے گھر اسلام آباد واپس لاکرآباد کرنے کا ارادہ کیا جو اس  کی مسلسل ضد اور علیحدگی کی خواہش کے باعث بار آور نہ ہوسکابلکہ حیرت اور آفریں ہے تمہاری والدہ محترمہ اوربھائی پر جنہیں اتنے بڑے واقعے پر کوئی ٹس مس نہ ہوئی کہ جو آپ کو کچھ غیرت مندی کاثبوت دیتے ہوئے کسی غیر محرم مردکے ساتھ ہمارے گھر سے چوری بھاگنے اور رسے تڑواکرلاہور جانے کی وجہ سے پوچھتے اور تمہاری خبر لینے کے بعد کوئی مثبت جواب یا پیش رفت کرتے لیکن الٹاہماری پیش کش کو ٹھکراتے اور رد کرتے ہوئے تمام عزیز واقارب میں میرے اور میری فیملی پر کیچڑاچھالنا شروع کردیا۔ اورا س طرح چوری اوپر سینہ زوری کا مظاہرہ کیا۔

یہاں دل کرتاہے ک*** تمہارے اوپر ایک تفصیلا مضمون لکھوں جس میں تمہاے مختلف دوہرے روپ، مسکڑا تکبرانہ انداز، خفیہ مکاریاں، گریبان میں نہ جھانگتے ہوئے اپنی چادر سے باہر پاؤں پھیلانا، غیرت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دولت اور پیسے کا خمار، آزادخیالی اور عیاشانہ زندگی کا سٹائل ، رات کو ہوٹلنگ اور دن کو شاپنگ کے خیالات، اسلام آباد سے لاہور اڑ کر چلے جانے کا ہر وقت بھوت سوار بیان کروں مگر میں تفصیل میں نہیں جارہا اور صبر کے ساتھ اللہ پر چھوڑتاہوں جو دلوں کے بھید اور نیتیں خوب جانتاہے۔ دوسروں کے لیے گھڑا کھودنے والوں اور رسوا کرنے والوں کو پہلے گھڑے میں ڈالتا اور رسوا کرتاہے۔ وہ ذات مجھے اور میرے والدین کو صبر کا  پھل انشاء اللہ ضرور دے گی۔ کیونکہ حق کوکوئی خطرہ نہیں اور سانچ کو کوئی آنچ نہیں۔

مگرتین باتوں کا افسوس ضرور رہے گا۔ ایک یہ کہ ہر قسم کی عیش وعشرت کے باوجود تم نے میری اور میرے والدین کی شرافت سے کس طرح ناجائز فائدہ اٹھایا اور میرے والدین جو پہلے ہی اپنے جواں سالہ بیٹے کی موت سے ستے ہوئے تھے، تم نے میرے گھر اپنی کل کل ڈال کر ان کو کس طرح مزید ستایا۔ دوسرا مجھ سے علیحدگی کی خاطر عرصہ دوسال میں بڑے بڑے گل کھلاکر اور مختلف ڈرامے رچاکر خواہ مخواہ کی رسوائی لی اور دی اور ہمارے ناک میں دم کر کے ہمیں علیحدگی پر مجبور کردیا۔ جبکہ یہ علیحدگی بڑے آرام سے شریفانہ انداز میں بھی ہوسکتی تھی ۔ آخر میں مجھے یہ سوال ہمیشہ ستاتا رہے گا کہ جب تمہارا میرے ساتھ شادی کرنے کو دل ہی نہیں چاہتاتھا اور تمہاری ناپسندیدہ شادی تھی باوجود اس کی کہ میرے والد صاحب نے بھی شادی سے پہلے آپ کو بنفس نفیس میرے تمام کوائف بتادیے تھے  گویا تمہارے والدین نےزبردستی یہ شادی کی تو تم نے شادی سے پہلے اپنے والدین کو کیوں نہیں بتایا اور شادی نہ کرنے پر مجبور کیا؟ کیوں انکار نہیں کیا؟؟ اور کیوں ضروری اقدامات نہیں اٹھائے؟

بقول تمہارے تو نے کسی غیر محرم کے ساتھ گھر سے چوری نکل کر لاہور جانے اور مجھ سے علیحدگی کرنے کا یہ فیصلہ بڑا سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ اس پر انشاء اللہ تمہیں ایک نہ ایک دن ضرور پچھتاوا ہوگا۔ بحرحال ایک طرف تمہاری منہ میٹی فنکاریوں کے ذریعے گھر برباد کرنے کو افسوس کے ساتھ داددیتاہوں اور دوسری طرف امید کرتاہوں کہ تمہا راضمیر تمہارے ان ذلت آمیز کا رناموں ، مسکڑی او ر چپ چپیتی گھٹیا چالوں اور فحش حرکتوں پر تمہیں ضرور ہمیشہ جھنجھوڑتااور ملامت کرتارہے گا۔ باقی امید ہے ہماری علیحدگی سے تمہاری ماسٹر مائنڈ بہن*** کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑجائے گی۔ جو طلاق کی سو بسم اللہ کہ کر اسے خوش آمدید کہتی تھی۔

تمام حقائق ومشاہدات کے پیش نظر اب میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ آپ کا میرے گھر آباد ہونے کا قطعی کوئی دلی ارادہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دلی خواہش اور تمنا۔ لہذا آپ اور میں اندر حدود خداوندی نباہ نہیں کرسکتے ہیں اس لیے ” میں ***ولد ***مسمات*** کو اپنی زوجیت سے فارغ کرتے ہوئے آخری طلاق ، طلاق ، طلاق دیتاہوں۔ آ ج سے*** میرے نطفے پر حرام ہیں آپ عدت کی مدت ختم ہونے پر جہاں چاہیں نکاح ثانی کرسکتی ہیں اور مجھے کوئی عذرنہ ہوگا۔

لہذا طلاق نامہ تحریر وتکمیل کردیاہے تاکہ بوقت ضرورت کام آوے اور اس کی نقل باضابطہ طورپر آپ کے حلقہ کے ناظم کو بھجوائی جارہی ہے۔ خداحافظ۔خداحافظ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved