• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میراث کی تقسیم

استفتاء

میرے تایا جان جن کی کوئی اولاد نہیں اب کافی بزرگ ہو گئے ہیں ان کی بیوی یعنی میری تائی جان بھی وفات پا گئی تھیں،اور میرے تایا جان کے والدین اور دادا دادی،نانا نانی بھی پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔ان کے باقی وارثوں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1۔ایک لے پالک بچی،اس کا بیٹا اور خاوند، ان کو تایا جان نے اپنی زرعی زمین میں سے 1/3 حصے سے زیادہ اس کے نام لگا دیا ہے اور قبضہ بھی دے دیا ہے سب کو معلوم ہے۔

2۔تایاجان کے اب صرف ایک بھائی یعنی میرے والد اور دو بہنیں یعنی میری دو پھوپھیاں زندہ ہیں۔

3۔ایک بھائی کاکچھ عرصہ پہلے انتقال ہو گیا تھا ان کی بیوہ اور تین بیٹیاں زندہ ہیں اور ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جواب مطلوب ہیں:

1۔ان کی وفات کے بعد ان کی جائیداد جو انہوں نے خود خریدی ہے اور جو دادا کی وراثت میں انہیں ملی ہے کس طرح تقسیم ہو گی؟ میں یہ اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ ان کی وفات کے بعد فوری طور پر اسے حل کر لیا جائے کیونکہ میرے ایک اور تایا جان جو پہلے ہی وفات پا چکے ہیں ان کی صرف تین بیٹیاں  تھیں انہوں نے اپنی بیماری میں ساری جائیداد ان بچیوں کے نام لگا دی تھی جو شاید شریعت کے مطابق 3/2 حصے کی مالک تھیں اور 8/1بیوہ کا اور 3/1 باقی وارثان کا تھا، اب ہم چاہتے ہیں ہیں کہ ان کی وفات کے بعد شریعت کے مطابق جس کا جو حصہ بنتا ہے اسی طرح تقسیم کیا جائے تاکہ کسی کا شرعی حق نہ مارا جائے۔

2۔کیا جو لے پالک بچے کو 1/3 سے زیادہ حصہ دیا گیا وہ درست ہے؟ کیا اب وہ مزید حصے کی حقدار ہوگی؟

3۔زندہ بھائی یعنی میرے والد والدہ یا ہم دو بہنوں اور ایک بھائی کو کتنا حصہ ملے گا؟

4۔دو بہنوں یعنی میری پھوپھیوں اور ان کی اولاد کو کتنا حصہ ملے گا؟

5۔میرے پہلے سے وفات پانے والے تایا کی تین بیٹیوں اور بیوہ کو کتنا حصہ ملے گا؟اور دیگر (عصبہ) رشتے داروں  اور میرے ماموں اور خالہ کا اگر کوئی حصہ بنتا ہے تو وہ بھی بتا دیں تاکہ ہم گناہ گار نہ ہوں۔

6۔کیا یہ اب بھی اپنی زمین و مکان وغیرہ کسی کو دے سکتے ہیں یا وصیت وغیرہ کر سکتے ہیں؟ جبکہ 3/1 حصہ پہلے ہی لے پالک بچی کو دے چکے ہیں، وہ کتنا کر سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1،3،4،5۔ اگر آپ کے تایا کے فوت ہوتے وقت ان کے مذکورہ ورثاء(ایک بھائی،دو بہنیں) زندہ ہوں تو تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل جائیداد کے چار حصے کر کے اس میں سے دو حصے بھائی کو اور ایک ایک حصہ ہر بہن کو ملے گا اس کے علاوہ  ابھی کوئی حق دار نہ ہوگا،چنانچہ فوت شدہ بھائی کی اولاد اور بیوی کو کچھ نہیں ملے گا اسی طرح لے پالک کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔

2۔لے پالک بچی کو جودے دیا وہ اس کا ہو گیا

6۔زندگی میں اگر کسی کو کچھ دینا چاہیں اور ان کی دماغی حالت بھی درست ہو  تو دے سکتے ہیں البتہ اگر وہ مرض الوفات میں کسی کو کچھ دیتے ہیں یا وصیت لکھتے ہیں تو وہ ان کے مرنے کے بعد ان کے ایک تہائی مال میں نافذ ہوگی اس سے زیادہ ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی۔

فتاویٰ ہندیہ(10/4)میں ہے:’’ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز ‌بما ‌زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved