• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح سے پہلے تفويض طلاق

استفتاء

نکاح کی رجسٹریشن کے لیے جاری کردہ فارم کی شق نمبر۱۸ میں درج ہے کہ” آیا شوہر نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کردیا ہے اگر کردیا ہے تو کونسی شرائط کے تحت” اس کے جواب میں عام طور پرنکاح فارم میں کچھ نہیں لکھا ہوتا لیکن بعض اوقات لوگ طلاق کا حق بیوی کو تفویض کرناچاہتےہیں تو اس صورت میں لکھ دیا جاتاہے کہ”جی ہاں” اور عام طور پر فارم نکاح کی مجلس میں مکمل کئے جاتےہیں او ردولہا دلہن اورگواہوں وغیرہ کے دستخط بھی نکاح کی مجلس میں ہی ہوتےہیں  لیکن یہ سارے کام بالعموم ایجاب وقبول سے قبل ہی مکمل کئے جاتےہیں اور طلاق کے حق کی تفویض وغیرہ کی کاروائی بھی ایجاب وقبول سے قبل ہی باہمی رضامندی سے طے کرلی جاتی ہے ۔ اب اس پر درج چند سوالات ذہن میں پیداہوتےہیں:

الف: اگر نکاح کی مجلس میں ایجاب وقبول سے قبل ہی طلاق کا حق صرف” جی ہاں” کے الفاظ سے تحریری طور پر منتقل کیاجائے اور نسبت الی النکاح وغیرہ کی کوئی بات نہ لکھی جائے اور نہ زبان سے کہا جائے تو کیااس صورت میں تفویض کا کام پہلے ہونے اور ایجاب وقبول بعد میں ہونے کی وجہ سے بیوی کو طلاق کا حق ملے گا یا کہ نہیں؟ اگر نہیں ملے تو یہ واضح کردیں کہ اگر فارم پہلے مکمل کئے جارہے ہوں تو اسصورت میں بہترطریقہ کیا ہوناچاہیے کہ بیوی کو طلاق کا حق مل جائے۔

ب: جس صورت میں بیوی کو طلاق کا حق تفویض شرعا ہوجاتاہو اس صورت میں اگر صرف جی ہاں ہی لکھ دیا جائے اور کوئی ایسے الفاظ نہ ہوں جو حق طلاق کی تفویض کے دوام پر دلالت کرتےہوں تو اس صورت میں طلاق کاحق صرف نکاح کی مجلس کے ساتھ خاص ہوگا یا عرف وغیرہ کی وجہ اس میں دوام ہوگا؟ کیونکہ اگردوام کے الفاظ کے بغیر تفویض طلاق کا حق صرف مجلس نکاح تک ہی محدود ہو تو اس صورت میں تفویض کا حقیقی مقصد فوت ہوجائے گالہذا اس صور ت میں اگر شق کے الفاظ ہی تبدیل کرنابہترہوتو وہ الفاظ تحریر کردیں۔

ج۔نکاح فارم میں عام طورپر نکاح خواں شق نمبر ۱۸ کے تحت درج ذیل الفاظ تحریر کردیتےہیں۔”جی ہاں  کردیاہے” شریعت محمدی کے مطابق وغیرہ وغیرہ۔

توکیا ان الفاظ سے طلاق کا حق بیوی کو مل جائےگا اور اگر مل جائے گا تو طلاق رجعی کا حق ملے گا یا بائن کا یاعورت کی مرضی پر موقوف ہوگا یا جب بیوی حق استعمال کرناچاہے گی و اس وقت میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے عدد اور صفت کی تعیین کی جائے گی۔ الغرض ان الفاظ میں موجود ابہام کی وضاحت کے لیے کیا معیا رقائم کیا جائے گا؟ یاپھر اس طرح کے الفاظ لکھنے سے طلاق کا حق بیوی کے لیے ثابت نہیں ہوگا؟۔

د۔اگر بیوی لاعلمی کی وجہ سے اپنے آپ کو طلاق دینے کی بجائے شوہر کو طلاق دیدے تو کیا اس صورت میں طلاق ہوجائے گی یا کہ نہیں؟ اور اگر نہیں ہوگی تواب بیوی مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد دوبارہ طلاق کا حق استعمال کرناچاہے تو کیا اسےایسا کرنے کا اختیار ہوگا کہ نہیں؟ واضح رہے کہ یہ سوال اس صورت میں ہے جب شوہر نے بیوی کو ہمیشہ کے لیے نکاح کے موقع پر کسی شرط کے بغیر ایک طلاق بائن کاحق تفویض کردیا ہو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

الف: بیوی کو طلاق کا حق نہیں ملے گا۔  اس لیے نکاح نامہ میں اس کو تفصیل سے لکھ کر ایجاب میں بھی اس کو ذکر کیا جائے مثلا ًنکاح پڑھانے والا یوں کہے کہ "میں نے فلانی کا نکاح تمہارے ساتھ اس پر کیا کہ اگرتم نے فلاں کام کیا تو فلانی کو اس وقت یا کسی وقت اپنے اوپر طلاق ڈالنے کاحق ہوگا۔ اور جواب میں مردکہے کہ میں نے شرائط سمیت قبول کیا۔

ب۔الف کے جواب سے متبادل عبارت بھی سمجھ میں آجائے گی۔

ج۔اگرصرف طلاق کا لفظ کہاہوگا توایک طلاق رجعی ڈال سکے گی۔ اگر طلاق بائن یاتین طلاق کہا ہوگا تو اس کے مطابق ہوگا

د۔طلاق نہیں ہوئی۔فقط واللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved