• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین مرتبہ بیوی کو کہا تو میری طرف سے فارغ ہےاور چوتھی مرتبہ کہا تو میری طرف سے فارغ ہے۔ جادفعہ ہو نکل یہاں سے

استفتاء

بیوی کا بیان

میری باتوں پر غور فرمایئے گا، میری شادی کو 23 برس کی مدت گزر گئی ہے۔ میں 3 بچوں کی ماں ہوں، میرے 3 بچے  بالغ ہیں ۔اکثر اور بیشتر ان سالوں میں چھوٹی موٹی لڑائی ہوتی رہیں، میں بچوں کی وجہ سے درگزر کرتی رہی ہوں۔ لیکن آٹھ ماہ سے مستقل یہ مجھ سے کسی نہ کسی بات پر لڑ پڑتے ہیں۔ ان آٹھ ماہ میں تین بار یہ مجھے کہہ چکے ہے کہ” تو میری طرف سے فارغ ہے”۔ اور اب آخری دفعہ  اتوار کی شام کو لڑائی ہوئی تو بہت واحیات گالیاں دی اور مجھے بہت بے دردی سے مارا، اور مجھے دوبارہ چوتھی دفعہ کہا کہ ” تو میری طرف سے فارغ ہے۔ جادفعہ ہو نکل یہاں سے” اور بہت گندے الزامات لگائے۔ جس میں میرا جوان بیٹا جسکی عمر 21سال ہے  اور بیٹی 13 سال کی جو بالغ ہے۔ وہ دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔ اور دھکے مار کر نکال دیا۔ اس کے بعد میری بڑی بیٹی شادی شدہ ہے وہ گھر آئی اپنے شوہر کے ساتھ تو اس کو بھی یہی کہا کہ میں نے تیری ماں کو آج فارغ کردیا۔ اور گھر سے نکا ل دیا، یہ سب باتیں میں نے اللہ کو حاضر جان کر اور اپنے پورے حوش وحواس میں لکھی ہے اب مجھے آپ اسلام  اور قرآن کی روشنی میں  اس کا جو حل ہے وہ بتادیجئے۔ اور میں ان نافرمان بیوی میں سے نہیں ہوں جو ان معاملات میں جھوٹ بولیں۔ آپ سے گذارش ہے کہ اس معاملے کا جو بھی صحیح فیصلہ ہے وہ بتادیجئے۔

نوٹ: پہلی دفعہ طلاق کے الفاظ کہنے سے لے کر دوسری دفعہ کہنے کے دوران تین ماہ واریاں گذر چکی تھیں، اور اس دورانیے میں صحبت بھی ہوئی تھی۔ اب آخری دفعہ کے الفاظ سے پندرہ دن پہلے تعلقات ازدواجی قائم ہوئے تھے۔

یہ میری تحریر پہلے بھی آچکی ہے ، اور آپ نے کہا تھا کہ نکاح دہرایا جائے۔ اب اس بات کو 3 ماہ 15دن گزر چکے ہے۔ اور مجھے اب اسلام کی روشنی میں اس مسئلے کا جو حل بنتاہے وہ بتادیں اور مجھے فارغ کیا جائے۔

عورت نے ابھی تک عدت نہیں کی  اگرو ہ اس مدت سے فارغ ہوگئی ہیں اب فارغ کیا جائیگا تو وہ اب عدت کرسکتی ہیں ،یا ضروری نہیں ہے؟ ان کوچار حیض ہوچکے ہیں۔

بیٹے کا بیان

السلام علیکم: میرانام*** ہے میری عمر  21 سال ہے میں اللہ کی قسم کھاکر کہہ رہاہوں جو کہوں گا سچ کہوں گا، میں نے جب سے حوش سنبھالا ہے  میں نے اپنے والد اور والدہ کو خوش نہیں دیکھا اور جب بھی دیکھا لڑائی جھگڑا دیکھا ، گالی گلوچ دیکھی، جو میرے والد فرماتے تھے۔ اور میری امی کو بہت بری طریقے سے مارتے تھے۔ آج سے تقریباً آٹھ ماہ پہلے میرے والد کی لڑائی ہوئی تو انہوں نےکہا میری والدہ کو ” میں نے تمہیں فارغ کیا، اور اسی وقت گھر سے  نکل جانے کو کہا اور اس وقت کافی رات ہوچکی تھی اور اکثر کہتے تھے کہ سالی  مرتی نہیں میرا بس نہیں چلتا اس پر تیزاب ڈال کر ماردوں اور تین چار دفعہ بعد میں بھی لڑائی ہوئی۔ تو یہی الفاظ دہرائے کہ ” میں نے تجھے فارغ کردیا۔ اور گھر سے نکل جا” اور اب اتوار کی رات کو تقریباً دس بجے کا ٹائم تھا تو انہوں نے میری والدہ کو کچھ نہیں کہا اور کہتے ہیں کہ میں نے شلوار مانگی تھی ۔ پھر انہوں نے میری والدہ کو جو تیوں سے مارنا شروع کردیا اور ہاتھوں سے تھپڑ مارے ، اور پھر پانی کا کٹورا مارا، پھر ٹی وی ٹرالی دے کر ماری وہ تو میں نے روک لی پھر میز اٹھا کردے ماری ، اس کا شیشے میں نے پکڑلیا اور پھر میرے ہاتھوں سے شیشہ چھین کر میری والدہ کو کہنے لگے میرا بس نہیں چلتا میں اس سے تیرے دو ٹکڑوں  کر ڈالوں اورواحیات قسم کی گالیاں دی اور پھر کہا کہ ” میں نے تجھے فارغ کردیا اور تواس گھر سے نکل "۔ اور پھر مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوا اور پھر انہوں نے ہمیں گھر سے نکال دیا اور کنڈی لگالی ، اور پھر میری بہن اور بہنوئی گھرآئے تو بہن نے پوچھا امی کہاں ہے تو والد نے کہاکہ میں اسے مارا اور گالیاں دے کر گھر سے نکال دیا۔ اور آج میں نے اس کو فارغ کردیا۔ پھر میرے خالہ خالو آئے تو ان سے بھی یہ ہی الفاظ کہے کہ میں نے اس کو مارکرگھر سے نکا ل دیا۔ اور فارغ کردیا ہے ۔ اور اب میں اپنے والد کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ میری والدہ کو فارغ کرچکے ہیں اور وہ جوے جیسی لعنت میں بھی مبتلاء ہے۔ یہ تمام باتیں میں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر لکھی ہیں،کیونکہ میں نے قیامت  کے دن اللہ کو جواب دینا ہے۔

بیٹی کا بیان

السلام علیکم: میرا نام کومل ہے ، میری عمر14 سال ہے میں 8 کی طلبہ ہوں مجھے اچھی  بری باتوں کا سب پتہ  ہے۔ میں جو بھی  کہوں گی  اس کا سب پتہ ہے ، میں اللہ کی قسم کھاکر کہوں گی ،ہمارے میں روزانہ امی پاپا کی لڑائی ہوتی تھی، اور گندی،گندی گالیاں امی کو دے تھے اور اتوار کے دن میری امی کو بہت زیادہ مارا جوتوں سے اور ٹی وی ٹرالی سمیت اٹھا کرماری اور ہمارے گھر میں ایک شیشے کی میز ہے وہ بھی اٹھاکر اور ماری اور شیشہ الگ ہوگیا تو کہا میرا بس نہیں چل رہا کے تیرے دونوں ٹکڑے کردوں اور کہا میرے گھر سے نکل جا دفعہ ہو اور میری طرف سےفار غ ہے میرا بھائی  پاپا کو مارنے سے روکتارہا اور اکثر کہتے تھے میر ا بس نہیں چلتا کے میری امی کے اوپر تیزاب ڈال کر مار دوں اور سالی کو آگ لگادوں اکثررات کو کہتے تھے دو یا تین بجے تو میر ے گھر سے نکل ابھی ہم دونوں کہتے تھے کہ امی نہ جاؤ۔ اور ہماری امی سارا دن روتی رہتی تھیں اور ہم نے کہا ہم پاپا کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور یہ جو کچھ بھی لکھا ہے اللہ کی قسم کھاکر سچ لکھا ہے۔                                                            

مجھے  ***سسر نے مجھے یہ بات کہی ہے خداکو حاضر ناظر مان کے لڑائی جھگڑے

شوہر کا بیان

میں اللہ کی قسم کھاکر کہتاہوں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا ۔ہماری لڑائی جہاں سے شروع ہوئی میں باتھ روم  میں تھا۔میں نے کپڑے مانگے انہوں نے کہا بس ابھی استری نہیں ہوئے میں پرانے کپڑے پہن کر باہر آگیا اس کے بعد میں نے اپنی بیوی  سے کہا کہ 15 منٹ ہوگئے ابھی تک  کپڑے استری نہیں ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا یہ لو کپڑے استری ہوئے  ۔۔۔بدلو۔ اس کے بعد اس نے مجھے ہاتھ سے جھٹکا دیا وہ جھٹکا مجھے برداشت نہیں ہوا اس کے  بعد میں نے بھی بدتمیزی کی اور اس نے بھی کی لڑائی جھگڑاہوا۔ اس کے بعد میں کہا جاؤ یہاں سے نکل جاؤ گھر سے نکال دیا اور کوئی بات نہیں کی۔ میں نے اپنے بیٹے عدنان سے بھی کہا کہ کہاں جارہے ہو۔ اس نے کہ امیں اپنی ماں کے ساتھ جارہاہوں۔

نیز اور میں  اللہ کوحاضر ناظر جان کر کہتاہوں کہ میں نے اس ورقے میں لکھے ہوئے الفاظ کے سواکبھی کچھ نہیں کہا، نہ ہی اس موقع پر اور نہ اس سے پہلے ،باقی جو میری بیوی نے الفاظ لکھے ہیں بالکل غلط اور جھوٹ ہیں۔ اسی طرح بیٹی اور بیٹے کی تحریر بھی غلط ہے ، وہ پہلے کچھ کہتے رہے بعد میں لکھا تو یہ لکھدیا۔                                                

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عورت کے مطابق جب شوہر نے پہلی دفعہ یہ الفاظ” تومیری طرف سے فارغ ہے” کہے  تو ان سے عورت اپنے حق میں ایک طلاق بائنہ سمجھے۔ جس سے نکاح ختم ہوجاتاہے ۔ اور باقی الفاظ چونکہ عدت گذرنے کے بعد کہے گئے ہیں اس لیے ان سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

لہذا اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہرے کے ساتھ نیا نکاح کرنا ضروری ہوگا۔

الصريح يلحق الصريح والبائن(بشرط العدة) والبائن يلحق الصريح البائن .وقال في الشامية المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ماكان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق. (شامی، ص: 531، ج؛4)

إنما يلحق الطلاق لمعتدة الطلاق.أما المتعدة للوطء فلا يلحقها.( شامی ،ص : 538،ج:4)

المرأة كالقاضي إذأسمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه. (شامی، ص: 449 ،ج:4)۔ فقط و اللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved