- فتوی نمبر: 3-128
- تاریخ: 03 مارچ 2010
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
ایک بندے کی شادی ہوگئی تھی ،مگر اپس میں جوڑنہیں آیا۔شادی کے دو سال بعد لڑکی ماں باپ کی گھر چلی گئی، بندے نے آٹھ ،نو سال منت سماجت کی ، مگر وہ نہیں مانے بلکہ وہ لڑکے کو دوسری شادی کا کہتے رہے۔لڑکی کی اجازت سے اللہ تعالیٰ کی کرنے سے لڑکے کا رشتہ ہوگیا۔ اب الحمدللہ اللہ کے فضل وکرم سے لڑکے کے ہاں تین بچے ہیں۔ مگر گیارہ سال گزرنے کے باوجود پہلی بیوی کو رکھنے کو تیا ر ہیں، مگر نہ لڑکی فارغ ہوناچاہتی ہے اور نہ گھر آناچاہتی ہے، بلکہ وہ بھی یہ کہتی ہے کہ مجھے خاوند کی ضرورت نہیں۔ اگر ضرورت پڑگئی تویہ میر اخاوند ہے۔ الحمدللہ دین دار لڑکی ہے ،صوم وصلاة کی پابند ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں لڑکا ظالم تو نہیں ہوگا،کیونکہ مسئلہ دنیا کا نہیں آخرت کا ہے ۔گنہگار تو نہیں ہوگا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جب خاوند بیوی کو اپنے پاس رکھنے اور حقوق ادا کرنے کے لیے تیار ہے تو خاوند نہ ظالم ہے اور نہ ہی گنہگار ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved