- فتوی نمبر: 18-192
- تاریخ: 20 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک مرد نے ایک عورت کو مسلمان کر کے نکاح کیاپھر اس کو تین طلاق دی پھر عورت مرتد ہوگئی اب وہ عورت مسلمان ہونے کے لیے تیار ہے ۔کیا اب یہ عورت اسی شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جب مرد نے عورت کو تین طلاقیں دیدیں تو عورت مرد کے لیے حرام ہوگئی اب اگر عورت مرتد ہو کر مسلمان بھی ہو جائےتو پھر بھی عورت مرد کے لیے حلال نہ ہوگی۔
در مختار مع الشامی 46/5 میں ہے:
قوله ( ولا ملك أمة الخ ) عطف على قوله وطء المولى أي لو طلقها ثنتين وهي أمة ثم ملكها أو ثلاثا وهي حرة فارتدت ولحقت بدار الحرب ثم سبيت وملكها لا يحل له وطؤها بملك اليمين حتى يزوجها فيدخل بها الزوج ثم يطلقها .
امداد الفتاوی 382/2 میں ہے:
سوال:زید نے ایک بے دین عورت کو دین اسلام میں لاکر اس سے نکاح کر لیا اور اس سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ زید نے کسی بے جا حرکت پر اس کو تین طلاق دے دیا۔ بعد ازاں عورت مذکورہ اسلام سے پھرگئی اب وہ عورت دائرہ اسلام میں آنا چاہتی ہے اور زید اس سے ثانیا نکاح کرنا چاہتا ہے۔آیا اس عورت سے بغیر تحلیل نکاح درست ہے یا نہیں؟اور توبہ استغفار اس کو کراکے نئے سرے سے نکاح کر لینا کافی وافی ہے یا نہیں؟اور دانش میں یہ ہے کہ اس مرتدہ کو تاکید شدید کر کے دین پر لاکر نکاح کرنا بس ہے بوجہ مرتدہ ہونے کےاحکام شرعی باطل ہو گیا تحلیل کی حاجت نہیں ہے؟
الجواب:در مختار میں ہے:
( لا بملك يمين ) لاشتراط الزوج بالنص فلا يحلها وطء المولى ولا ملك أمة بعد طلقتين أو حرة بعد ثلاث وردة وسبي نظيره من فرق بينهما بظهار أو لعان ثم ارتدت وسبيت ثم ملكها لم تحل له أبدا.شامی میں ہے: قوله:لا بملك يمين عطف على قوله بنكاح نافذ.قوله ( لم تحل له أبدا ) أي ما لم يكفر في الظهار ويكذب نفسه أو تصدقه في اللعان . فوجه الشبه بين المسألتين أن الردة واللحاق والسبي لم تبطل حكم الظهار واللعان كما لم تبطل حكم الطلاق.
اس روایت میں تصریح ہے کہ اگر زید نے اس کو تین طلاق دیدی ہیں تو تحلیل کی حاجت ہے ردت سے حکم تحلیل باطل نہیں ہوا
© Copyright 2024, All Rights Reserved