• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شک کی وجہ سے رضاعت کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک عورت جس کی عمر 55 سال تھی خاوند فوت ہو چکا تھا بچے جوان تھے  اس وقت اس نے اپنے پوتے کو دودھ پلانے کی کوشش کی چھاتی میں دودھ نہیں تھا بچے نے کوشش کی مگر یاد نہیں بچے کے حلق میں کچھ گیا یا نہیں اب اس بچے کا نکاح خاتون کی نواسی سے ممکن ہے؟ دودھ پینے کی صورت میں تو بچہ اس لڑکی کا ماموں بنتا ہے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب تک بچے کے حلق میں دودھ جانے کا حتمی علم نہ ہو  رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

(در مختار 4/392) میں ہے:

فلو التقم الحلمة ولم یدر ادخل اللبن فی حلقه ام لا لم یحرم لان فی المانع شکا.

(رد مختار 4/392) میں ہے:

وفي القنية : إمرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بيكهم ثم تقول:لم يكن في ثديي لبن حين ألتقمتها ثديي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها،جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية.

(امداد الفتاوی 2/337)میں ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء اکرام و فقہائے عظام اس بارے میں کہ ایک عورت کے دس بچے ہیں اور سب میں سے جو آخر کا بچہ ہے اس کے چھ بچے پیدا ہوئے. ان چھ بچوں میں سے  بھی جو آخری لڑکا پیدا ہوا اس کی ماں فوت ہو گئی اور اس کی بڑھیا دادی نے  یعنی وہ پہلی عورت جس کی یہ سب اولاد ہوئی اس لڑکے کو اپنے پستانوں پر لگایا.  مندرجہ بالا تفصیل اولاد اور نیز  مزید معلومات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بڑھیا کی عمر اس وقت تقریبا سو برس کو پہنچ چکی ہوگی ورنہ اسی برس سے کم ہرگز نہیں اور یہ بھی ثابت نہیں کہ اس کی پستانوں میں کوئی دودھ پیدا ہوا ہو اور نہ ایسا امکان ہی ہے تاہم لوگ اس لڑکے کو رضاعی بچہ تصور کرکے اس بڑھیا کی ساری اولاد سے شادی کرنا شرعا جائز نہیں سمجھتے۔

جواب: فلو التقم الحلمة ولم یدر ادخل اللبن فی حلقه ام لا لم یحرم لان فی المانع شکا….إلي آخره.

اس روایت سے ثابت ہوا کہ اگر دودھ اترنا اور حلق میں جانا اس دودھ پلانے والی کے قول سے یا کسی دوسری دلیل سے ثابت ہو تب تو رضاع معہ اپنے احکام کے ثابت ہو گا اور جو کوئی ثبوت نہ ہو تو صرف پستان منہ میں دینے سے رضاع ثابت نہ ہوگا. خلاصہ یہ کہ دودھ پینے کے لئے ثبوت کی ضرورت ہے دودھ نہ پینے کے لئے ثبوت کی ضرورت نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved