• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بہنوں کو ان کے حصوں کے بدلے ہدیہ کرنا

استفتاء

ہم دو بھائی  اور چھ بہنیں  تھے۔ 1969ء میں ہمارے والد ** کا انتقال ہوگیا۔ ہماری والدہ اس وقت حیات تھیں۔ ہمارے والد صاحب کےانتقال کے بعد ہماری تمام بہنیں ( جن میں سے چھوٹی تین نابالغ بھی تھیں )، والدہ کی ترغیب پر اپنے  حق سے دستبردار ہوگئیں اور اپنا حصہ ہم دو بھائیوں کو ہدیہ کر دیا۔ چھوٹی بہنوں نے بالغ ہونے پر ہدیہ کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ 1993ء میں میرے بھائی ** کا بھی انتقال ہوگیا۔

2000ء میں ہمیں علماء و مفتی حضرات سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ مذکورہ طریقے سے جو میراث بہنوں کی طرف سے بھائیوں کو ہبہ کی گئی تھی شرعاً یہ طریقہ درست نہ تھا۔ اب میں اکیلا ایک بھائی بچا ہوا تھادوسرے بھائی تو وفات پا چکے تھے۔ یہ مسئلہ پتہ چلنے پر میں نے طے کیا کہ میں اپنے اور اپنے مرحوم بھائی** کی طرف سے والد کی میراث میں سےبہنوں کا چھوڑا ہوا حصہ ان کو واپس کردوں  کیونکہ وہ ہبہ ٹھیک ہی نہ تھا۔

تمام اثاثہ جات کی اس وقت کے حساب سے بازاری قیمت ( مارکیٹ ویلیو ) کا اندازہ لگایا گیا۔ جس پر تمام ورثاء کی رضامندی تھی پھر میں نے تمام اثاثہ جات ماسوائے 205 جی ٹی روڈ والے اثاثے کے اس  قیمت پر سے سب سے خرید لیے جس مارکیٹ ویلیو پر سب راضی تھے۔ تمام بہنوں کو میری طرف سے ان کے حصوں کی قیمت دیدی گئی۔ البتہ میرے مرحوم بھائی **کی بیوی اور بچوں کو کچھ نہ دیا گیا۔ ( حصوں کی صرف قیمت لگائی گئی مزید تفصیل آگے آرہی ہے )۔

ادائیگی کا طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ تین بڑی بہنوں نسیم ، ناہید اور ثمینہ نے مجھ سے قرضے لیے ہوئے تھے۔ ان کے حصوں کی ادائیگی کو قرضوں میں ایڈجسٹ کر دیا گیا اور بقایا جات کی نقد ادائیگی کر دی گئی۔ باقی تین چھوٹی بہنوں  روبینہ، سیماء اور اسماء کو میں نے (وراثت میں ان کا حصہ واپس کرنے کے فیصلے سے پہلے ) بطور گفٹ ان کے حصوں سے زیادہ کی مالیت کے پلاٹ اور اس پر مکان بنا کر دیے، ذہن میں یہ رکھتے ہوئے کہ مجھے ان بہنوں کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ انہوں نے وراثت میں اپنا حصہ  چھوڑا ہے اور یہ ضرورت مند بھی ہیں ( پلاٹ و مکان کی مجموعی مالیت ان کے حصوں سے زیادہ تھی)۔ حصے واپس کرنے کے فیصلے کےبعد میں ان تمام ہدایا کو ان کے حصون کی ادائیگی کے مقابلے میں ایڈجسٹ کردیا۔

مرحوم بھائی** کے ورثاء کے حوالے سے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ان کے   انتقال کے وقت ان کے ورثاء ان کی بیوی *** ، بالغ بیٹیاں ( ماہیرہ، مہرین) اورایک سترہ سالہ بیٹے *** تھے۔ میں  ان بچوں کا سرپرست بھی تھا۔ تو میں نےان بچوں کے حصوں کی قیمت  لگائی اوران کو بتادیا کہ تمہارے حصوں کی ادائیگی میرے پاس محفوظ ہیں اور میں کسی مناسب وقت پر وہ تمہیں دے دوں گا۔ اس لیے کہ میں یہ سمجھتاتھا کہ فی الحال تنی بڑی رقم انہیں دینا ٹھیک نہیں۔

یہ سب میں نے بچوں کے مستقبل کے فائدے کے پیش نظر کیا، اسی لیے ان کے اثاثوں کی قیمت روپوں میں لگانے کی بجائے امریکی ڈالرز میں لگائی ( لیکن ان کے حصوں کی ادائیگی کی رقم کو علیحدہ نہیں کیا)۔  وجہ اس کی یہ تھی کہ دونوں بیٹیوں کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ان کی مستقبل کی صورتحال واضح نہ تھی، لہذا کچھ عرصہ گذرنے کے بعد میں نے 10، 10 مرلے کے دو پلاٹ ان کے نام کے خرید لیے اور جو  مزید کچھ رقم ان کے حصوں کی باقی تھی وہ *** کے ایک کنال کے پلاٹ خریداری میں لگ گئی کیونکہ وہ تھوڑا مہنگا تھا اور اس میں  بہنوں کی رضامندی نہ پوچھی گئی تھی، البتہ میں نے کاغذات میں صراحتا لکھ دیا کہ بہنوں کے حصوں کی بقایا رقم *** کے ذمے واجب الادا ہے۔

بہنوں کے پلاٹوں کی فائل 2011ء میں  نے ان کے حوالے کردی گئی۔ *** کا پلاٹ میں نے اپنے نام پر ہی لیا تھا اس کا قبضہ میں نے ابھی تک نہیں دیا۔ بلکہ وہ پلاٹ میں نے رضا کو نہ دینے کا فیصلہ کرلیا بوجہ تفصیل  جو آگے آرہی ہے۔

بیوہ *** کا معاملہ یہ ہواا کہ مرحوم ** نے PIA کا ایک پلاٹ تھرڈ پارٹی کےنام پر خریدا ہوا تھا۔ *** نے میری اجازت سے اسے بیچ دیا، لیکن میری رضامندی کے بغیر اس رقم کو بلا کسی حساب کتاب کے گھر، بچوں اور اپنی ذاتی اشیاء پر خرچ کیا۔ لہذا ہم نے اب اس کی ایڈجسٹمنٹ ایسے کی کہ پی آئی اے کا پلاٹ *** کے حصہ کی ادائیگی کے مقابلے میں ایڈجسٹ کردیا کیونکہ انہوں نے بغیر میری ( ولی ) اجازت کے وہ پیسے خرچ کیے اور وہ پیسے** کے ورثاء کا مشترکہ مال تھا۔

مرحوم بھائی **کے اکلوتے بیٹے *** کو بینائی کا مسئلہ ہے کہ دھندلا دھندلا نظر آتا ہے۔ ان کا حصہ تقریباً ساڑھے پچیس ہزار ڈالر بنا تھا۔ اس میں سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار ڈالر کو ہم نے گارمنٹس کمپنی مشروم کی ایک فرنچائز میں انوسٹ کردیا اور *** کو وہ فرنچائز دے دی۔ مگر *** نے وہ فرنچائز دوبارہ مشروم کو بیچ کر اس سے حاصل شدہ رقم کو اپنے نئے ذاتی کاروبار میں لگایا۔ بقیہ حصہ کی رقم اسے نہ دی گئی تھی۔ پھر 2004ء میں اس حصہ کے رقم سے زیادہ کا ایک پلاٹ *** کے لیے اپنے نام پر خریدا گیا مگر اس کا قبضہ نہیں دیا گیا۔

اس وقت *** اس پر راضی تھا، مگر 2008ء میں جب تمام زمینوں کی قیمتیں بڑھیں مگر اس کے پلاٹ کی قیمت نہ بڑھی تو *** نے کہا کہ میں نے اپنا حصہ بیچنے کی دستاویز پر مروت میں دستخط کر دیے تھے اور مجھے اس کے نتائج کا صحیح پتہ نہ تھا۔ لہذا مجھے 74A/C1  مکان  میں شریک کیا جائے۔  (74A/C1   میرے والد صاحب کی میراث تھی اس میں سب شریک تھے سب بہنوں سے ان کا حصہ میں نے ان کی رضامندی سے خریدلیا تھا، اور *** نے اس وقت اپنے حصے کو بیچنے کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تھے جس کی نقل میرے پاس محفوظ ہے)، میں *** کے مطالبے کو صحیح نہ سمجھتاتھا لیکن میں نے تبرع کرتے ہوئے  74A/C1   کے مکان کا دوبارہ تخمینہ لگوایا۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ میں نے ابھی 2011ء میں PAF فالکن کالونی میں ایک کروڑ تیس لاکھ کا گھر خریدا ہے۔ اس میں سے *** کو 70% حصہ دوں گا جو کہ اس کے دوبارہ لگائی گئی حصے کی قیمت سے کافی زیادہ ہے۔ زائد رقم میری طرف سے ہدیہ شمار ہوگی۔ باقی 30%  کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیالیکن ارادہ ہے کہ اس کو رضا کی دونوں بہنوں اور ماں کے درمیان برابر تقسیم کردوں

گا۔ مذکورہ بالا پوری تفصیل کے بعد درج ذیل چند امور کے بارےمیں مجھے یہ معلوم کرنا ہے :

۱۔ علماء اور مفتی حضرات کے کہنے پر میں نے بہنوں کو ان کی طرف سے ہدیہ شدہ حصہ اپنی طرف  اور بھائی کی طرف سے لوٹایا ( ممکن ہے کہ مرحوم بھائی کے ورثاء خوش دلی سے راضی نہ ہوئے ہوں )، کیا ایسا لوٹانا شرعا صحیح تھا؟ اگر نہیں تو اب کیا کیا جائے؟

۲۔ چھوٹی بہنوں کو ان  کو جو گفٹ ( پلاٹ و مکان) میں نے اپنی ذاتی جیب سے بنا کر دیے۔ ا س کی ایڈجسٹمنٹ اور اسے مذکورہ طریقے سے حصوں کی ادائیگی کا بدل قرار دینا کیا شرعاً درست تھا؟ اگر نہیں تو اب کیا کیا جائے؟

۳۔ میں نے**کے بچوں کو ان کے مفاد کے پیش نظر ان کا جو حصہ ( بحیثیت ولی ) فوراً اسی وقت نہ دیا کیا شرعاً یہ صحیح تھا؟ اگر نہیں تو اب کیا کیا جائے؟

۴۔ میں نے ان بچوں کے حصوں کی رقم الگ نہ رکھی تھی بلکہ وہ میرے تصرف میں تھی۔ جس سے کچھ عرصے بعد میں نے ان کے لیے پلاٹ خریدے، کیا شرعا ایسا کرنا درست تھا؟ اگر نہیں تو اب کیا کیا جائے؟

۵۔ *** کا حصہ ان کی ظاہری رضامندی سے پی آئی اے پلاٹ میں جس طریقے سے ایڈجسٹ کیا گیا ، کیا وہ صحیح تھا، کیونکہ قوی امکان ہے کہ وہ دل سے راضی نہ تھیں؟ اگر نہیں  تو اب کیا کیا جائے؟

۶۔ کیا *** کا دوبارہ مطالبہ کرنا کہ مجھے 74A/C1   میں دوبارہ شریک بنایا جائے درست تھا؟

۷۔ *** کے کہنے پر اس کا خیال کرتے ہوئے میں نے  74A/C1   میں صرف اس کے حصے کا دوبارہ  تخمینہ لگایا گیا۔ اور اس کی بہنوں کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ ایسا کرنا درست تھا؟ اگر نہیں تو اب کیا کیا جائے؟

مذکورہ بالا امور کے علاوہ اگر اس معاملے میں مجھے سےکوئی غلطی سرزد ہوگئی ہو تو براہ کرم مطلع فرمائیں تاکہ میری گردن پر کسی کا کوئی مالی حق باقی نہ رہے۔امید ہے کہ جلد واضح جواب ارشاد فرمائیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ آپ کی تین بہنوں نے جوکہ 5، 6، اور 7 نمبر کی حامل ہیں اپنے حصے آپ دو بھائیوں کو ہبہ کیے۔ وہ ہبہ نافذ تھا۔ بدلے میں آپ نے ان کو مذکورہ بالاجائیدادیں ہبہ کیں۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے ااور کچھ  اور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved