• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

معاف کرنے کے بعد چچا کا پھر سے اپنی بہنوں کے حصہ کا مطالبہ

استفتاء

میرے والد صاحب دو بھائی اور پانچ بہنیں تھیں۔ ایک بہن کا انتقال ہوگیا جو کہ لا ولد تھیں، میرے والد کا میں ایک بیٹا اور میری پانچ بہنیں ہیں، والدہ حیات ہیں جبکہ میرے چچا جان کے چار بیٹے اوردو بیٹیاں ہیں۔

میرے والد اور چچا جان کے درمیان یہ طے پایا تھاکہ  ہماری جو کوٹھی اس میں، ہر ایک بھائی دو بہنوں کا حصہ ان کی رضامندی کے ساتھ قیمت کے ساتھ یا اگر وہ ویسے بغیر قیمت کے دینا چاہیں تو ویسے لے لیں، اس طرح یہ رہائش ہم دو بھائیوں میں برابر تقسیم ہوجائیگی۔ اس دوران والد صاحب کا انتقال ہوگیا، میں نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ اپنی بہنوں یعنی میری پھوپھیوں سے بات کریں اور اگر وہ اپنا حصہ لینا چاہتی ہیں تو قیمت طے کر کے ان کو حصہ دے دیا جائے اور اگر وہ اپنی مرضی سے بغیر قیمت کے دینا چاہیں تو جس طرح وہ چاہیں ان کا حصہ لیا جائے اور اس سلسلہ میں جو قانونی کاروائی ضروری ہو وہ پوری کر لی جائے۔

اور میری اور اپنی طرف  سے پھوپھیوں سے آپ بات کر لیں چچا نے ان سے بات کی ، ایک بہن نے کہا کہ مجھے ضرورت ہے میں اپنا حصہ لوں گی، چچا نے اس بہن کو بتایا کہ تمہارے حصہ کی اتنی رقم بنتی ہے اور انہوں نے رقم بہن کو ادا کردی اور بہن نے وہ رقم لے کر ایک اسٹامپ پیپر پر اپنا حصہ چچا کے نام لکھ دیا۔ جو رقم ادا کی گئی وہ جائیداد کی قیمت کے حساب سے کم تھی مگر وہ رقم چچا نے طے کی اور پھوپھی نے وصول کر کے اپنا حصہ ان کے نام لکھ  دیا۔ دوسری دو بہنوں نے حصہ لینے سے انکار کیا اور چچا نے ان دونوں سے بھی ان کا حصہ اپنے نام الگ الگ اسٹامپ پیپر پرلکھوا لیا۔ مجھے نہیں بتایا کا فی عرصہ کے بعد مجھ پر جب یہ بات کھلی کہ چچا نے تینوں بہنو ں کا حصہ میرے اور اپنے درمیان برابر لکھوانے کی بجائے اپنے نام لکھوایا ہے۔ چوتھی بہن بیرون ملک رہائش پذیر تھیں اب میں نے چچا سے کہا کہ ہماری تو بات یہ طے تھی کہ دو بہنوں کا حصہ آپ اور دو بہنوں کا میں لوں گا، تو انہوں نے کہا کہ ایک بہن جس نے اپنے حصے کی رقم نہیں لی اس کا حصہ تم لے لینا اور ایک بہن جو کہ بیرون ملک رہائش پذیر ہیں ان کو تم اتنی ہی رقم ادا کردینا جتنی میں نے ادا کی ہے کیونکہ وہ بہن اپنا حصہ لینا چاہتی ہیں، اس طرح دو بہنوں کا حصہ تمہیں مل  جائے گا اور دو کا مجھے۔

میں نے وہ رقم چچا کو اداکر دی  کہ آپ یہ رقم ان کو ادا کردیں اور اس سے اسٹامپ لکھوالیں چچا نے وہ رقم اپنے پاس رکھی اور میرے اصرار پر پھوپھی کو دو سال بعدادا کی اور ہمیں ادا کرنے کے بعد آکر بتایا کہ پھوپھی نے وہ رقم وصول کر لی ہے۔ آپ کو مبارک ہو، جس پر میں نے کہا کہ آپ نے ان سے اسٹامپ لکھوائی ہے ، وہ کہنے لگے کہ میں نے اس کے سامنے رکھا تھا مگر اس نے فی الحال دستخط نہیں کیے۔ میں نے چچا جان سے کہا کہ مجھے ان سے رجسٹری کروا کر دیں تاکہ یہ قانونی طور پر ہماری ملکیت میں آجائے کیونکہ آپ کے اسٹامپوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اس پر انہوں نے پھوپھی کو سامنے بٹھا کر یہ کہا کہ یہ رجسٹری کرواناچاہتا ہے کیونکہ  اس کو آپ پر اعتبار نہیں کہ کہیں آپ کل کلاں مکر نہ جائیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تمہیں میری بہنوں پر اعتبار نہ ہو پر مجھے اپنی بہنوں پر پورا اعتبار ہے تم ایسا کرو کہ میرا حصہ جو کہ دو بہنوں کے برابر ہے اپنے نام رجسٹری کر والو میں جانوں  اور میری بہنیں ہم آپس میں خود ہی فیصلے کرتے رہیں گے تم فارغ ہو جاؤ۔ اس پرمیں نے کہا کہ مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہے اور میں نے ان سے اپنے نام ان کے حصے کی رجسٹری کروالی۔

اب پانچ سال بعد چاروں بہنیں اپنا حصہ خود لینا چاہتی ہیں جو انہوں نے چچا کو دے دیا تھا اور تین بہنوں نے اس کے اسٹامپ بھی لکھ دیے تھے اور چوتھی نے اسٹامپ تو نہیں لکھا تھا مگر رقم وصول کر لی تھی کہ بعد میں لکھ دوں گی۔ اب مختلف ذرائع سے چچا تقاضا کر رہے ہیں کہ بہنیں کیوں کہ مجھے حصہ  نہیں دی رہیں اس لیے تم میرا حصہ مجھے واپس کردو جو میں نے ان سے رجسٹری کروایا ہوا ہے جس کو اب تقریباً پانچ سال ہوگئے ہیں۔ شریعت کے اعتبار سے میرے لیے کیا حکم ہے؟

وضاحت: ہمیں نہیں معلوم کہ آیا بہنیں اپنا حصہ مانگ بھی رہی ہیں یا نہیں، چچا کا کہنا ہے کہ مانگ رہی ہیں۔ سٹیمپ پیپر کی قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو حصے آپ کے پاس ہیں وہ آپ کے ہیں۔ ان میں نہ تو آپ کے چچا کا حصہ ہے اور نہ ہی آپ کی کسی پھوپھی کا حصہ ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved