• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں اپنی تمام اولاد کو برابر، برابر حصہ دینا چاہیے

استفتاء

سائ******میں رہائش  پذیر بیوی *** اور عرصہ دراز سے بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے  معذور ہوں۔ اپنی بیماری کی وجہ سے اپنی جائیداد مندرجہ دستاویز کے اپنے حقیقی حقداران، 2 حقیقی بیٹے، 4 حقیقی بیٹیوں میں برابر حصہ ہبہ کر دیا ہے۔ بیٹوں کو اعتراض  ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں س دوگناہ حصہ  ہے۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں فرمائیے کہ بیٹوں کو بیٹیوں کے برابر، برابر حصہ بطور ہبہ کر سکتا ہے۔  اب فتویٰ دے دیں تاکہ بیٹے مطمئن ہو جائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آدمی اپنی زندگی میں اولاد کو ہبہ کرے تو بیٹوں اور بیٹیوں کے جائیداد میں مساوات کرنا مستحسن اور مستحب ہے۔ اگر بیٹی کو  بیٹوں کا نصف دے تو یہ بھی جائز ہے۔ لیکن اگر آپ ہبہ کر کے دے چکے ہیں تو اب  آپ  بیٹی سے واپس نہیں لے سکتے۔ فتاویٰ شامی میں ہے:

لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب و كذا في العطيا إن لم يقصد به الإضرار و إن قصده يسوي بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني و عليه الفتوى ( قوله) و عليه الفتوى أي على قول أبي يوسف من أن التنصيف بين الذكر والانثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رحمه الله. ( 8/ 853 )۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved