• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غیر منقسم کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع

استفتاء

1۔  دو فریقین کا آپس میں پیسوں کا معاملہ تھا۔ چونکہ ان کے اس معاملے میں کوئی تحریری ثبوت یا گواہ نہیں تھے اس لیے فریق اول فریق دوم سے رقم کا مطالبہ کرتا ہے، جس پر فریق دوم  جواباً انکار رقم کرتا ہے۔ فریق اول بضد ہے کہ فریق دوم  مجھے  حلفاً تسلی دے دے تو میں اپنی رقم کا مطالبہ نہیں کروں گا۔ ۔۔۔۔ کو فریق دوئم ( رقم دینے والا ) اپنا موقف پر قائل تو نہیں کر سکا اور  ساتھ ساتھ حلفاً  اپنی ۔۔۔ بھی نہیں دینا چاہتا۔ اب بتائیں کیا) اس صورت حال میں فریق اول حلف فریق دوئم سے لے تو کیا اس پر کوئی گناہ تو نہیں۔ ۲) حلف کے معاملے میں ثالثین فریق پر تو  کوئی گناہ نہیں ہے۔۳) طریقہ حلف ( نیاں ) کیا ہے؟ ۴) اگر اسی طرح فریق دوئم فریق اول سے حلف لے تو کیا طریقہ ہے؟

2۔ *** ، *** ،بہن سے   دس سال بڑا ہے۔ یوں *** بچپن سے چھوٹے بہن بھائی کو پنے والدین کی زندگی میں اپنے بڑے ہونے کے ناطے  لکھاتا پڑھاتا اور والد کا بازو بن کر محنت مزدوری کرتا رہا۔ والد نے اپنی زندگی میں اپنا ذاتی گھر بیچ کر ایک کاروبار شروع کیا۔ سال ڈیڑھ سال بعد والد کا انتقال ہوگیا۔ تو *** جو اس وقت ملازمت کرتا تھا، نے اپنی ملازمت چھوڑ کر والد کے کاروبار کو سنبھالا۔ مگر اس وقت اور نہ ہی بعد میں ***نے اس کاروبار میں اپنی طرف سےکوئی سرمایہ لگایا۔ کیونکہ وہ خود ملازمت کی رقم سے  بمشکل گذارہ کرتا تھا۔ اس طرح *** جو کہ *** سے دس سال چھوٹا ہے وہ بھی تعلیم نامکمل چھوڑ کر *** کے ساتھ والد کےکاروبار میں شامل ہوگیا۔ *** چونکہ بڑا تھااس لیے کاروبار کی سرپرستی کی ۔ اور *** نے اپنے بھائی کا ساتھ دیا۔ کاروبار میں ترقی ہوئی تو انہوں نےایک مکان ( اس کاروبار سے ) اپنی والدہ کے نام پر خریدا اسی طرح کچھ عرصہ بعد انہوں نے دکانیں خریدیں۔ ***نے جو  کاروبار کی سرپرستی ( لین دین سارا ان کے ہاتھ میں تھا) کرتا تھا، نے ایک دکان *** کو یہ کہہ کر بیچ دی کہ میں تمہیں تمہاراحصہ دے دوں گا۔( یعنی  وہ دکان *** و *** کے نام تھی ) بعد میں *** نے کوئی رقم دکان میں سے نہ ہی کمیٹیوں سے ملنی والی رقم میں سے کچھ  بھی نہیں دیا۔ اس وقت موجودہ جائیداد میں ایک مکان ایک کمرشل پلاٹ اور ایک فلیٹ جو والد مرحوم کے نام پر تھا۔ بعد میں عدالت سے وراثتی انتقال کروالیا  ہے۔

۱۔ والد کے نام صرف فلیٹ تھا اس میں ماں بہن ،*** بھائی کا حصہ وراثتی ہے ۔

۲۔ مکان اور کمرشل پلاٹ اور فروخت شدہ ایک دکان کی وصول شدہ رقم (دکان جو *** و *** کے نام برابر حصہ  کے حیثیت سے تھی *** نے  حصہ کے لیے فروخت کی رقم *** کو نہیں دی ) یہ سب میرے بڑے ہونے اور کاروبار کی سرپرستی کرنے کی وجہ سے بنے ( پہلے نہیں تھے ) ہیں لہذا یہ سب میرے  ہیں ان میں سے نہ ماں بہن و بھائی کسی کا حصہ نہیں  بنتا ہے۔

۳۔ اور میں بچپن سے والد مرحوم کا بازو بن  کر چھوٹے بہن بھائی کو پالا ہے اس بنیاد پر بھی ان بہن بھائی کا اس جائیداد میں سےکچھ حصہ نہیں بنتا۔ اگر انہوں نے اپنا حصہ لینا ہے تو بچپن میں کی گئی میری خدمات و احسانات کے عوض یہ بہن بھائی مجھے پچاس لاکھ روپے دیں جو میں نے والد مرحوم کی زندگی میں ان کا بازو بن کر کی ہیں۔

نوٹ: دلیل *** احسانات و خدمات کی بنا پر پچاس لاکھ کے کلیم کی وضاحت ضرور فرمائیں۔

*** کے دلائل

۱۔ والد نے اپنا ذاتی مکان بیچ کر کاروبار خود سال ڈیڑھ سال تک چلایا۔ بعد ان کے وفات کے *** نے ملازمت چھوڑ کر  اور *** نے تعلیم ادھری چھوڑ کر کاروبار کو سنبھالا۔ اور اس کاروبار سے ایک مکان ( بنام والدہ ) ایک کمرشل پلاٹ اور ایک دکان ( دونوں بھائیوں نے تمام برابر حصہ ملکیت خریدی ) اور اسی کاروبار سےکمیٹیوں کی رقم  کا  بھی  منافع آیا۔ یعنی باپ نے ایک مرغی خرید کر کاروبار شروع کیا۔ وہ مرغی انڈے بچے دیتے رہی۔ اور یوں ایک پولٹری فارم بن گیا۔(۲)۔ اگر والد مرحوم کی وفات پر ان کے جاری شروع کردہ کاروبار میں سے ورثاء ( بیوہ ماں، بہن، ***، *** ) اپنا حصہ وراثت لے لیتے تو وہ کاروبار کا سرمایہ بیکار ہوجاتا۔ اور یوں کم سرمایہ سے آج جو جائیداد لے رہے ہیں وہ نہ بن پاتی۔ بننے والی جائیداد سب ورثاء کے اکٹھے سرمایہ کی برکت کی وجہ سے وجود میں آئی ہے لہذا اس میں سب کا حصہ ہے؟ (۳) *** کی خدمات و احسانات اس نے اپنے والد کی زندگی میں کیے اور بڑا جو ہوتا ہے اس پر بڑی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ اگر *** *** کی جگہ ہوتا تو *** والد کا  بازو بن کر محنت کرتا۔ (۴) *** اس مشترکہ کاروبار اور کاروباری سرپرستی کی وجہ سے اپنی شادی کے اخراجات، بیوی بچوں کی ضروریات کو ۔۔۔ اخراجات سے پورا کرتا رہا ۔ یوں وہ اس کاروبار سے مالی فوائد پہلے ہی حاصل کرچکا ہے۔ لہذا موجودہ جائیداد مکان، کمرشل پلاٹ،فلیٹ سب میں سب ورثاء ( بیوہ، بہنیں، بھائی کا حصہ  ہے )۔

3۔ *** و *** نے اپنے والد کے شروع کردہ کاروبار میں سے جو ایک کمرشل پلاٹ خریدا تھا وہ انہوں نے انکم ٹیکس سےبچنے اور لوگوں کو ( اس جگہ کے ) کاروبار کےچل جانے اور نظرو میں نہ آئیں ، کی وجوہات پر کمرشل پلاٹ اپنے ماموں زاد بہنوئی کے نام پر خریدا۔ آج وہ بہنوئی یہ کہتے ہیں کہ *** نے جو اس کاروبار کا سرپرستی کرتا تھا ) میرے نام پر پلاٹ لگایا تھا۔ میں *** ہی کو یہ پلاٹ واپس کروں گا۔ وہ چاہے باقی ورثاء ماں بہن، بھائی کو اس میں سے کچھ دے نہ دے۔ یہی مؤقف *** بھی اختیار کرتے ہیں کہ میں نےاپنی محنت سے یہ پلاٹ خرید کر بہنوئی کے نام کیا۔ لہذایہ میرا پلاٹ ہے اس میں کسی کا کچھ حصہ نہیں۔ جو اب *** یہ پلاٹ بھی والد کے شروع کردہ کاروبار میں سے ہی بنا ہے۔ اگر ورثاء والد کی وفات پر اپنا اپنا شرعی حصہ لے لیتے تو بیس ، پچاس ہزار حصے سے کسی ایک  کا بھی کچھ نہ بنتا۔ یہ سب کے اکٹھے سرمایہ اور *** و *** کی محنت کرنے پر ایک مکان اور کمرشل پلاٹ کو فروخت شدہ دکان و رقم  کی شکل میں جائیداد بنی ۔ ۲۔ لہذا بہنوئی یہ پلاٹ صرف *** کو ہی نہیں دے سکتے۔ بلکہ اس میں سب ورثاء کا حصہ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

2۔3 ۔  والد کے چھوڑے ہوئے کاروبار کو اگر ورثاء میں تقسیم نہ کیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والا  اضافہ اور م*** خریدی جانے والی جائیداد تمام ورثاء کی مشترکہ ہوتی ہے۔ اس دوران کام کرنے والے اپنے اخراجات کے لیے جو کچھ وصول کر تے رہے ہوں وہ ان کا محتانہ قرار پاتا ہے۔ جو دکان *** و *** دونوں کے نام تھی اس کا حصہ *** لینے کا حق رکھتا ہے۔

1۔ حلف لے سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ  یہ ہے کہ فریق ثانی یوں کہے کہ جس مد میں فریق اول اس سے روپے کا مطالبہ  کر رہا ہے اللہ پاک کی قسم اس مد میں مجھ پر اس کے روپے واجب الادا نہیں ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved