- فتوی نمبر: 4-98
- تاریخ: 03 جولائی 2011
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ایک *** نامی شخص کا انتقال ہواا س کی اولاد میں دو بیٹے اورتین بیٹیاں ہیں۔ تمام شادی شدہ ہیں اور صاحب اولاد ہیں اور
سب کے سب والد کی فوتگی کے وقت موجود تھے۔ اور والد کی وفات کے بعد والدہ کا بھی انتقال ہوگیا ، مرحوم اپنی وفات کے بعد اپنے اولاد کے لیے ایک قطعہ مکان چھوڑ گئے۔ ان کی اولاد میں سے ایک بیٹی اور ایک بیٹے کا بھی انتقال ہوگیا، لیکن ابھی تک اس مکان کی وراثت تقسیم نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں چھوٹے بیٹے *** مرحوم جن کا انتقال ہوا ان کا ایک عدد زری کا کارخانہ ہے جس کا انتظام *** مرحوم کی بیماری کے باعث بڑے بھائی *** کے پاس چلا گیا۔ بعد ازاں *** کا بھی انتقال ہوگیا۔
چھوٹے بھائی *** کی وفات کےبعد ان کی بیوہ کی عدت کے مکمل ہوجانے کے بعد *** مرحوم کے بڑے بھائی *** کی بیوی کا بھی انتقال ہوگیا۔ *** کی تین بیٹیاں جو کہ بالغ اور دو بیٹے ایک بالغ اور ایک نابالغ ہے، جبکہ ایک بیٹی کی شادی ہو چکی ہے، چھوٹے بھائی *** جن کی فوت ہوئے ا یک سال ہوگیا ہے ان کے دو بیٹے ہیں اور نابالغ ہیں۔ اب بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کی بیوہ کو کسی رشتہ دار کے ذریعہ پیغام نکاح بھیجا ، بیوہ نے انکار کردیا۔ پھر فدااحمد نے خود جا کر نکاح کے متعلق بات کی جو بیوہ نے پھر مسترد کر دی۔ اب ان حالات میں جگہ مختصر ہونے کے باعث بیوہ کا اس گھر میں رہنا نامناسب تھا۔ کیونکہ اس گھر میں پردے کا مستقل طور پر اہتمام نہیں رکھا جاسکتا۔ اس لیے بیوہ واپس اپنے حقیقی بھائی کےہاں رہ رہی ہے۔ اب انہوں نے یعنی بیوہ نے مطالبہ کیا کہ مکان کو تقسیم کریں ہمارا حصہ ہمیں دیا جائے،جبکہ فدااحمد نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور وہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں اس جائیداد کی تقسیم نہیں کرنی باقی بہنیں بھی مطالبہ کر چیں ہیں لیکن وہ انکاری ہیں۔ اور ان کے حصہ کو کرایہ پر دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کچھ حصہ مکان کا حال ہی میں کرایہ پر دیا ہے۔ اس سے آنے والا کرایہ اور کارخانے سے آنے والا نفع خود استعمال کرہے ہیں۔ *** کے اولاد کی کفالت کی ذمہ داری اور ان کی والدہ یعنی بیوہ *** اپنے گھر میں رہنے سے مشروط کر رہے ہیں۔ جبکہ بیوہ نامناسب حالات ہونے کے باعث وہاں رہنے اور نکاح کرنے سے پہلے ہی انکار کر چکی ہیں۔ ا س کے علاوہ جب تک وہ وہاں رہیں بچوں کی کفالت میں امتیازی سلوک بھی دیکھ چکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس کا جیٹھ یعنی فدااحمد اس گھر میں دوبارہ واپس آنے کے لیے اصرار کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس فتویٰ موجود ہے کہ ان کا اس گھر میں ہی رہنا مناسب ترین ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں کسی کو کوئی حصہ نہ دوں گا۔ اگر چہ گھر کے کاغذات میں تمام فریقین کے نام کے اندراج سے انکاری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بیوہ کا اس بات پر شدید اصرار ہے کہ میں نکاح *** سے تو کیا مستقل بعید میں بھی کسی بھی شخص سے نہ کروں گی۔
از روئے شریعت وضاحت فرما دیں کہ قرآن وسنت میں ان کے لیے کیا حکم ہے کس کو کتنا حصہ ملے گا کارخانے سے آنے والے نفع میں سے کس کو کتنا ملنا چاہیے؟ جب تک جائیداد کی تقسیم نہیں ہوتی اس کے ایک پورشن سے جو کرایہ آرہا ہے وہ کس کو کتنا ملنا چاہے۔ بیوہ *** کے پردے کا کوئی مستقل انتظام نہیں ہوسکتا اس صورت میں ان کا پیغام نکاح کے انکار پر وہاں رہنے کے متعلق کیا حکم ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
*** کی اولاد کی تفصیل : 2 بیٹے، 3 بیٹیاں
بیٹوں کے نام: 1۔ فدااحمد 2۔ *** مرحوم
بیٹیوں کے نام : 1۔ *** 2۔ *** مرحوم 3۔ ***
نوٹ: *** بیگم کا انتقال والدہ کے انتقال سے پہلے جبکہ *** کاا نتقال والدہ کے انتقال کے بعد ہوا۔ یہ کہ *** کی اولاد میں پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
کارخانے میں کام کی نوعیت کچھ اس طرح ہے ، زری کا کام ہاتھ سے دولہا دلہن کے کپڑوں پر ٹانکہ جاتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی مشین کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کام کے کارخانے میں رقم کی کھپت ہزاروں میں ہے نہ کہ لاکھوں میں، کارخانے کی جگہ کرائے پر حاصل کر رکھی ہے۔جیسا کہ دونوں بھائی ہاتھ کے ہنر والے کاروبار سے وابستہ تھے بڑے بھائی *** ملک سے باہر کویت، سعودی عرب میں پچھلے تقریباً بیس سال سے زری کے کاریگر کی حیثیت سے ملازمت کرتے رہے ہیں۔ لیکن جب بھی پاکستان گھر آئے تو چھوٹے بھائی *** کیساتھ کام میں لگ جاتے،کیونکہ گھر کے تمام اخراجات مل جل کر ہوتے تھے۔
*** اآخری مرتبہ جب پاکستان آئے تو چھوٹے بھائی *** بیمار ہو گئے۔بعد ازاں انتقال کر گئے اور کارخانے کا نظام وہ دکان دار جن سے لین دن تھا تمام کاریگر جو کہ چھوٹے بھائی *** کی ملازمت میں تھے ، سب *** نے سنبھال لیا ہے۔یعنی چھوٹے بھائی *** نے کارخانے کا حصہ دینے کے لیے کچھ نہ کیا بلکہ قدرت کی طرف سے ایسا ہوا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس تحریر میں چار سوال ہیں: (1) *** کی بیوہ کی رہائش، (2) کارخانے سے ہونے والا نفع، (3) مکان میں سے ورثاء کے حصے، (4) گھر کے پورشن کا کرایہ کس کو ملے گا؟ ان کے جوابات ترتیب وار درج کیے جاتے ہیں۔
1۔ *** کی بیوہ جب فدا سے نکاح پر تیار نہیں اور اس گھر میں پردے کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں تو ایسے حالات میں بیوہ کا اپنے بھائی کے پاس رہنا ہی مناسب ہے۔ اور *** کا یہ کہنا کہ میں اپنی زندگی میں کسی کو حصہ نہ دوں گا سخت گناہ کی بات ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال قلت يا رسول الله أي الظلم أظلم، فقال ذراع من أرض ينتفع به المرء المسلم من حق أخيه فليس حصاة من الأرض يأخذها إلا طوقها يوم القيامة إلى قعر الأرض و لا يعلم قعرها إلا الله الذي خلقها.(مسند احمد، طبرانی ،بحوالہ تخریج احادیث اصول البزدوی:57 )
ترجمہ: حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کونسا ظلم بڑا ظلم ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان آدمی کا اپنے بھائی کی زمین سے ( ظلماً) فائدہ اٹھانا چنانچہ جو شخص زمین کا ایک کنکر بھی ناحق لے گا تو ( اس کے بدلے) اسے قیامت کے دن اس زمین کی گہرائی تک طوق بنا کر گلے میں ڈالا جائے گا اور زمین کی گہرائی تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی ہے؟
2۔ *** کی وفات کے وقت جو سرمایہ تھا خواہ نقدی کی شکل میں ہو یا قرض کی صورت میں یا اوزار و آلات کی صورت میں وہ *** کی بیوہ اور بچوں کوملےگا۔ کل سرمائے کے 16 حصے کر کے 2 بیوہ کو اور سات ساتھ ہر بیٹے کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہوگی۔
8×2=16
بیوی بیٹا بیٹا
2×1 2×7
2 14
2 7 7
البتہ موجودہ نفع فداء کا ہوگا۔
3۔ مکان کے کل 25344 حصے ہوں گے جن میں سے *** کو 7568 حصے، ہ** کو 3748 حصے، *** کو 3748حصے، *** کے شوہر کو 792 حصے ، *** کی بیٹی کو 168 حصے، *** کے ہر بیٹے کو 336 حصے ، *** کی بیوہ کو 946 حصے، *** کے ہر بیٹے کو 3311 حصے ملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے:
1۔ 8×132=1056×3=3168×825344 ***
*** بیٹی
1
*** بیٹا
132×2
3×264
792
بیوی
132×1
132
*** بیٹا ***بیٹی *** بیٹی
132×2 132×1 132×1
264×3 132×3 132×3
792×8 396×8 396×8
6336 3168 3168
2۔ 12×11=132×3=396 *** مف 1
ماں
11×2
22
شوہر بیٹی بیٹا بیٹا بیٹا بیٹا بیٹا
11×3 3×7 14×3 14×3 14×3 14×3 14×3
33×3 21×8 42×8 42×8 42×8 42×8 42×8
99×8 168 336 336 336 336 336
792
3۔6 وفق 3 زوجہ *** مف 154 وفق 77
***
2×77
154
فدا احمد ہاجرہ ***
2×77 1×77 1×77
154×8 77×8 77×8
1232 616 616
4۔ 8×2=16 *** مف 946
بیوی بیٹا بیٹا
1×2 7×2
2 14
2×473 7×473 7×473
946 3311 3311
الاحیاء
**** زوج *** بنت *** ابن ***5 زوجہ *** ابن ***
7568 3784 3784 792 168 336 ہر بیٹے کو 946 3311ہر بیٹےکو
4۔گھر کے پورشن کا جو کرایہ ہے وہ مذکورہ بالا تقسیم کے مطابق ہی تقسیم ہوگا یعنی جس کی مکان میں ملکیت کا جو تناسب ہے وہ کرایہ کا اسی حساب سے حق دار ہوگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved