• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایک بھائی نے والد کی زندگی میں اپنا حصہ لے لیا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:

میرے ایک بھائی جو کہ** صاحب ہیں انہوں نے والد صاحب کی زندگی میں شرعی حصہ لے لیا تھا اب پوچھنا یہ ہے کہ والد صاحب کی وفات کے بعد ان کا ترکہ تقسیم کیا جارہا ہے۔ آیا میرے  بھائی جو کہ ** صاحب ہیں اس میں ان کا حصہ بنتا ہے؟ کیونکہ انہوں نے والد کی حیات میں اپنا حصہ شرعی حصہ لیا  ہے اس کا اقرار نامہ بھی موجود ہے جو کہ ساتھ لف ہے۔

س

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے بھائی صاحب کو والد صاحب کی طرف سے دیا جانے والا حصہ قرض شمار ہوگا۔ ہبہ یا وراثت شمار نہیں ہوگا۔ گویا یوں سمجھا جائے گا کہ آپ کے والد نے بھائی کو اتنی مقدار میں اپنی زندگی میں قرض دیا تھا جو انہوں نے ان کو واپس کرنا تھا۔ اب جب وہ فوت ہوگئے تو ان بھائی کے پس موجود قرض کو ان کی وراثت کے اثاثوں میں شمار کیا جائے گا لیکن کس مالیت کے حساب سے؟ اس کا طریقہ کا ر یہ ہے کہ جس وقت مذکورہ پیسے ادا کیے گئے تھے اس وقت ان پیسوں میں کتنی چاندی آتی تھی۔ جتنی چاندی اس دور میں آتی تھی اتنی چاندی کے وہ مقروض سمجھے جائیں گے۔ اور آج ترکے میں سے اتنی مالیت ان کے وراثت میں سے منہا کر لی جائے گی۔ اگر چاندی کل مالیت اور اس کا وہ برابر سرابر ہو تو فبہا اور اگر کمی بیشی ہو تو تمام ورثاء کی باہمی رضا مندی سے معاملہ نمٹا لیا جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved