• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بہنوں کا حصہ

استفتاء

میرے والد  حاجی** مرحوم نے دو شادیاں کر رکھی تھیں اور مندرجہ ذیل اولاد ان دونوں بیویوں سے تھیں۔

بیوی نمبر1: 3 بیٹیاں، 1 بیٹا ( والدہ اور دو بہنیں فوت ہوچکی ہیں )، بیوی نمبر2 :3 بیٹیاں، 1 بیٹا ( میری والدہ حیات ہیں )

والد صاحب کی حیات میں دونوں بیویاں زندہ تھیں اور تمام اولاد بھی حیات تھی۔ میرے والد صاحب ہارٹ کے مریض تھے لیکن ان کی ظاہری حالت نہایت اچھی تھی، لال سرخ رنگ، اور اکٹیو تھے۔ چونکہ ان کی دو بیویاں تھیں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے دو گھر ایک نوانکوٹ اور دوسرا گلشن راوی میں بنوا رہے تھے۔ نوانکوٹ والا گھر مکمل بنا ہوا تھا اور ہم اس میں رہائش پزیر تھے یعنی کہ میری والدہ بمعہ اپنے بچے جبکہ والد صاحب کی پہلی بیوی ملحقہ دادا کی جائیداد والے گھر میں رہائش پزیر تھے۔ جبکہ گلشن راوی والا گھر زیر تعمیر تھا۔ اس دوران والد صاحب نے میری بڑی بہن کی شادی کردی اور اسی شادی کے دوران میرے والد صاحب نے تمام خاندان کے افراد کے سامنے یہ وصیت / اعلان کیا کہ نوانکوٹ والا گھرمیرے بڑے بیٹے کا ہے جبکہ گلشن راوی والا گھر میرے چھوٹے بیٹے یعنی میرا ہے۔ اس پر خاندان کے لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ یہ گھر ان دونوں کے نام کر دیں تاکہ کسی بھی  ممکنہ جھگڑے سے بچا جاسکے اس پر میرے والد صاحب نے کہا کہ مجھے صرف ایک ہفتے کاوقت چاہیے شادی سے فارغ ہو کر میں یہ کام کردوں گالیکن للہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھاسی ہفتہ کے دوران ان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ انتقال کر گئے۔

ان کے انتقال کے کچھ عرصے بعد جائیداد کی وجہ سے ہمارے درمیان جھگڑے شروع ہوگئے۔ خاندان کے بڑوں نے بیٹھ کر فیصلہ دیا کہ ہم دونوں فریق اپنے والد کے فیصلے پر قائم رہیں اور ان کی وصیت / اعلان کے مطابق جائیداد تقسیم کر لیں۔ اسی فیصلہ کی روشنی میں ہم سے کہا گیا کہ ہم نوانکوٹ والا گھر خالی کر کے بڑے بھائی کو دے دیں جو کہ مکمل تھا اور ہم سے کہا گیا کہ آپ گلشن راوی والے گھر جو کہ ابھی زیر تعمیر تھا میں چلے جائیں۔ کیونکہ یہ آپ کے والد کا فیصلہ تھا۔ ہم سب اس فیصلہ پر متفق ہوگئے اور ہم نے نوانکوٹ والا گھر خالی کر دیا اور خود نامکمل گھر گلشن راوی میں آگئے۔

اب اس سلسلے میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے میں نے اپنی مقامی مسجد عزیز رشتہ واقع اے بلاک گلشن راوی کے مولانا عبدالخالق سے رابطہ کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ تمام مسئلہ کو سن کر مولانا نے کہا کہ اگرمعاملہ اسی طرح ہے اور گواہ موجود ہیں تو یہ مسئلہ ہبہ کے زمرہ میں آتا ہے اور آپ دونوں بھائیوں کے علاوہ اور کوئی حصہ دار نہیں اور اپنے اپنے گھر کے واحد مالک ہو۔

اب میری ایک بہن مجھ سے گلشن راوی والے گھر سے اپنا حصہ مانگ رہی ہے جبکہ دو بہنیں حصہ نہیں مانگ رہیں ہیں۔

اس کے بعد انہوں نے مجھے آپ سے رجوع کرنے کو کہا تاکہ شرعی طور واضح حکم حاصل کیا جاسکے۔مزید یہ آپ سے تحریری طور پر بھی لکھوا لیا جائے تاکہ آئندہ کے لیے سند رہے اور یہ اگر عدالت وغیرہ میں اس کی ضرورت پڑی تو عدالت میں تحریری طور پر شرعی نقطہ نظر سے اس کو پیش کیا جاسکے۔

آج تک ہم نے یہ مسئلہ کسی عالم سے پوچھا نہ تھا اس لیے اس سلسلے میں ہمیں کوئی علم یا معلومات نہ تھیں۔

آپ سے گذارش ہے کہ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں اور تحریری طور پر اس مسئلہ کا شرعی حکم دیا جائے تاکہ میں اس کو اگر ضرورت پڑی تو عدالت میں بھی پیش کر سکوں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

نوٹ: والد صاحب نے صرف تین کمرے اور لینٹر ڈلوایا تھا ، پانی، بجلی ، گیس وغیرہ اور پکے فرش وغیرہ دیگر تعمیرات میں نے خود کروائی ہیں۔ مذکورہ پلاٹ کو ڈی اے سےمسئلہ نکلا تو اس کے لیے دو مرتبہ عدالت میں کیس وغیرہ کے اخراجات خود برداشت کیے تھے کسی نے ساتھ نہیں دیا تھا نہ کوئی آگے بڑھا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر ترکہ میں صرف یہی دو جائیدادیں ہیں تو اگر چہ آپ کے والد نے ہبہ یا ہدیہ آپ دو بھائیوں کو کیا اور امام مالک اور امام احمدرحمہما اللہ کے نزدیک قبضہ کرنا شرط نہیں ہے لیکن آپ حضرات کو چاہیے تھا کہ صلہ رحمی کے طور پر ہی سہی اپنی بہنوں کو کچھ دیتے۔ جو دو بہنیں کچھ نہیں مانگ رہیں ان سے راضی نامہ لکھوالیں اور تیسری بہن جو مطالبہ کر رہی ہے اس کو کچھ دے کر راضی کریں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved