• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وصیت

استفتاء

1۔ ہمارے بہنوئی صاحب کا مورخہ 4 نومبر 2012 انتقال ہوگیا اور پسماندگان میں ایک حقیقی بھائی، چھ بھتیجے اور تین بھتیجیاں چھوڑیں ہیں اور ان کے والدین اور بیوی اس سے پہلے فوت ہوچکے ہیں۔ اور کوئی اولاد نہیں ہے۔ ترکہ میں پانچ مرلے کے مشترکہ مکان کا نصف حصہ، نقد رقم تقریباً تین لاکھ اکیس ہزار روپے اور سوا تین تولے کا زیور چھوڑا ہے۔ مذکورہ مکان کے بارے میں میت اور اس کی اہلیہ مرحومہ کا ارادہ تھا کہ ان کے مرنے کے بعد اس کی قیمت ان کے اور ان کے عزیز و اقارب کے لیے ایصال ثواب کے لیے کسی مسجد یا مدرسہ کی تعمیر میں خرچ کر دی جائے۔ جس کا اظہار وہ اپنے بھتیجے اور دیگر کئی احباب کے سامنے کر چکے ہیں چنانہ ایک موقعہ پر فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکان ہم نے اپنے لیے بطور صدقہ جاریہ دینا ہے۔اسی طرح بیوی نے بھی ایک مرتبہ اپنے شوہر کی موجودگی میں شوہر سے کہا کہ رانا صاحب یہ مکان ہمارے مرنے کے بعد ہمارے لیے صدقہ جاریہ ہوگا۔

2۔ میت نے اپنی زندگی میں سالی سے کہا کہ جس کے پاس مذکورہ زیور اور رقم بطور امانت رکھوائی ہوئی تھی کہ میرے بھتیجے عمیر کے لیے میری بھانجی کو یہ زیور اور ایک لاکھ روپے دے دینا تاکہ جب اس کی شادی ہو تو وہ اسے دے دے۔

3۔ اس کے علاوہ ایک بھتیجی کے لیے پچاس ہزار روپے اور دو بھتیجیوں اور ایک بھانجی کے لیے کہا کہ ان میں سے ہر ایک کو بیس یا پچیس ہزار روپے دے دینا۔

4۔ اس کے علاوہ کہا کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو میرے بھانجے خان کو اطلاع کر دینا اور پینتیس یا چالیس ہزار روپے اس کے دے دینا تاکہ وہ کفن دفن کرے۔ تاکہ کسی پر بوجھ نہ ہو۔ لہذا ان کے مرنے کے بعد مبلغ چالیس ہزار روپے خان کے حوالے کر دیے گئے۔ پوچھنا یہ ہے کہ

۱)۔ میراث کس طرح تقسیم کی جائے گی؟

۲)۔ کیا ہم ان کی خواہش کے مطابق مکان کی رقم کسی مسجد یا مدرسہ کی تعمیر میں خرچ کرسکتے ہیں؟

۳)۔ بھتیجے اور بھانجی وغیرہ کے بارے میں وصیت کا کیا حکم ہے؟ بھانجی سے مراد چچا زاد بہن کی بیٹی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ میت کا وارث صرف اس کا بھائی ہے۔ وصیت کو پورا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ بھائی کو ملے گا۔

۲۔ وارث اگر چاہے تو پورے مکان کی قیمت میت کے لیے صدقہ جاریہ میں دے سکتا ہے۔ اور اگر وارث پورے مکان کو صدقہ میں دینے پر راضی نہ ہو تو اس کی موجودہ قیمت کی ایک تہائی تک میت کے لیے صدقہ کردے تاکہ وفات شدہ میاں بیوی کے لیے کچھ تو صدقہ جاریہ بنے اگرچہ لا علمی کی وجہ سے وہ مکان صحیح طریقے سے وصیت نہ کرسکے۔ اس سے وارث کو بھی ثواب ہوگا۔

۳۔ میت کے کل ترکہ کے ایک تہائی میں سے یہ رقمیں نکل سکتی ہیں تو ان کو پورا کیا جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved