• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مجنون کی طلاق

استفتاء

***میرا چھوٹا حقیقی بھائی ہے۔ ہم دونوں بھائی اپنے والدین کے مکان میں اکٹھے سکونت پذیر ہیں۔ والدین فوت ہوچکے ہیں۔ میری اپنی بیوی بھی فوت ہوچکی ہے۔ *** نے اپنی بیوی کو کبھی بھی کوئی خرچہ نہ دیا ہے۔ اب اس کے تین بچے  ( دو لڑکیاں، ایک لڑکا) بھی ہیں۔ لہذا اپنےبچوں کے ساتھ ساتھ اس کے بچوں کے اخراجات میں خود برداشت کر رہا ہوں۔ شادی سے قبل **** پاک فوج میں ملازم تھا، دوران ملازمت اس کی شادی عزیزوں میں کر دی گئی۔ شادی سے تقریباً پندرہ دن پیشتر **** نے مجھے فون پر مطلع کیا کہ وہ بیمار ہے اور سی ایم ایچ سیالکوٹ میں زیر علاج ہے۔ میں اس کی عیادت  کرنے سیالکوٹ گیا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ*** سی ایم ایچ کے شعبہ دماغی امراض میں داخل ہے۔ اس کی عیادت کے بعد میں اس کے متعلقہ ڈاکٹر صاحب سے ملا اور ان کو صاف صاف بتلایا کہ پندرہ دن کے بعد **** کی شادی ہونے والی ہے۔ اگر مریض نارمل ہے تو بہتر ورنہ ہم تاریخ بڑھا دیتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ کے خاندان میں کوئی ذہنی مریض ہوا ۔ میں نے ان کو بتلایا کہ جب پاکستان بنا تو میرا تایا جان، پھوپھی اور ان کے بچوں کو ظالم ہندووں نے شہید کر دیا۔ جب یہ خبر میرے دادا حضور کوملی تو تو ذہنی توازن کھو بیٹھے۔

۲۔ میرے دو۔۔۔۔غصے والے، شکی المزاج ہیں۔ انہوں نے کافی سوچ بچار کےبعد فرمایا کہ مریض نارمل ہے۔ آپ اس کی شادی کردیں ۔چنانچہ **** کی شادی مقررہ تاریخ پر کردی گئی۔ شادی کے تقریباً دو ماہ بعد *** کو اس بنا پر کہ اہلکار فوج سروس کے قابل نہ ہے کی بنیاد پر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ لہذا صاحب موصوف گھر واپس آگیا۔۔ ایک ا ور اہم  بات آپ کے علم میں لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ

۳۔ میرے والد صاحب جب عمر 80 سال ہوئی تو وہ بھی ذہنی مریض بن گئے اور اسی بیماری میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ **** فوج سے واپسی کے بعد کچھ عرصہ تو بیکار رہا پھر اس کو دوکان کروائی گئی لیکن دوکان نہ ملی۔ پھر ملازمت کروائی گئی وہ بھی اس نے کچھ عرصہ کے بعد چھوڑدی، کیونکہ گھر کا خرچہ میں خود چلا رہا تھا۔ لہذا اس نے کبھی بھی مجھے یا اپنی بیوی بچوں کو کچھ نہیں دیا۔ بہرحال دونوں میاں بیوی میں ہم آہنگی تھی اور کوئی لڑئی جھگڑا نہ تھا۔ اسطرح پانچ سال بیت گئے اور **** دو بچوں کا باپ بن گیا۔ اب بیوی نے اس کو کمانے پر اصرار کیا۔ لیکن اس نے اس کا الٹ ۔۔ لیا اس کے مزاج میں چراچرا پن، غصہ، شک اور جنون پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ اکثر میاں بیوی کی لڑائی مارکٹائی رہتی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کسی نے مجھ پر جادو کر دیا۔ اور میری بیوی بدچلن ہے۔ محلہ داروں کو بھی خاطر میں نہ لاتا اور اکثر جو لوگ اس کو نصیحت کرتے ان کے خلاف ہوجاتا۔ اسی اثنا میں اس نے نام نہاد کالے علم کے عالموں سے تعلقات استوار کر دیے اور یہاں سے بھی اسے رقم ملتی ان کو نذرانے پیش کرتا اور ان کے بتلائے عمل کرتا۔اسکی حالت یہاں تک بگڑی کہ اس نے اپنی بیوی کو  متعدد بار زبان اور دو مرتبہ  تحریری طلاق دی۔ اسی دوران تیسری بچی بھی پیدا ہوگئی۔ بچی کی پیدائش پر اس نے کہا کہ یہ میری بچی نہ ہے یہ فلاں شخص کی بچی ہے۔

میں نے تمام حالات مقامی علماء کرام کو پیش کیے نہوں نے بتلایا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے۔ میں نے اپنی بھائی کے میکے والوں کو لمحہ بہ لمحہ فون پر حالات بتائے لیکن میری بھابھی فون پر ان کو آنے سے منع کردیتی۔ میرے بھابھی  کا موقف ہے کہ یہ اکثر یہ لفظ استعمال کرتے میں اس کو تسلیم نہیں کرتی یعنی میں طلاق قبول نہیں کرتی، لہذا مجھے کوئی طلاق نہ ہے۔ میں اسی گھر میں رہ کر بچوں کو پالوں گی، کیونکہ میں اپنے بچوں کو **** یا کسی اور کے حوالے نہیں کرسکتی۔ آخری مرتبہ میں نے نومبر 2011 کو خود جاکر بھابھی کے میکے  والوں کو بتلایا اورا نہوں نے وعدہ کیا کہ ہم ایک ماہ میں آئیں گے لیکن وہ نہ آئے۔

جہاں تک **** کے علاج کروانے کا تعلق ہے۔ سب سے پہلے میں اس کو لیکر***کے ایک عامل  جن کا تعلق ایک*** کے خانوادے سے ہے گیااور من و عن تمام حالات ان کے گوش گذار کیے۔ انہوں نے فرمایا کہ” اس کے کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی”۔انہوں نے کچھ ذکر اذکار بتلائے لیکن آرام نہ ہوا۔ ان کے علاوہ میں نےکئی اور  عالموں سے  رابطہ کیا لیکن لا حاصل۔ روحانی علاج کے علاوہ میں نے ڈاکٹری علاج آرمی سول کے اچھے ماہر نفسیات دماغی امراض کے ماہرین سے کروایا۔ **** شروع شروع میں تو ادویات استعمال کرتا پھر چھوڑ دیتا۔ اب اس کی حالت اور خراب ہوئی یہ اکثر رات کو گلیوں میں پھرتا بھی چھت پر پھرتا رہتا ۔ ہر وقت چھری  گنڈا اپنے پاس رکھتا کہ میں اپنی بیوی اور فلاں فلاں شخص کو قتل کروں گا۔

لہذا میں اس کو لیکر ڈاکٹر ***جو کہ*** دماغی امراض ( پاگل خانہ ) کے مشہور ڈاکٹر ہیں کے پاس لے گیا۔ انہوں نے تقریباً اس کا مسلسل آٹھ ، دس ماہ علاج کیا۔ لیکن بعد میں پھر س نے ادویات چھوڑدی ہیں۔ البتہ جنون اب کسی قدرے کم ہیے۔ لیکن باقی باتیں جوں کی توں ہیں۔ دس اکتوبر 2011 میں **** بسلسلہ ملازمت سرگودھا چلا گیا اور وہاں سے جہلم بہن کے پاس۔ اس وقت بہن کو بھی چھوڑ کر کسی ہوٹل پر ملازمت کر رہا ہے۔ جہلم بہن کے پاس اس نے  بھتیجوں بھانجوں کے سامنے ایک بار پھر اقرار کیا کہ  میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ اور جو میں نے اس سے تعلقات رکھے ناجائز تھے۔ لہذا میری بیوی طلاق یافتہ ہے اور گھر میں نہیں رہ سکتی،لہذا اس کو فوراً گھر سے نکال دو۔ میں بچوں کو یتیم خانہ میں داخل کرادوں گا۔میں اورمیرے بچے صرف اور صرف اللہ تبارک تعالیٰ کی رضا اور خونی رشتہ کی بنا کر حالات کا مقابلہ کررہے ہیں اور بچوں کی  پرورش کر رہے ہیں اور کوئی دنیاوی لالچ نہ ہے۔ میں نے تمام حالات اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر آپ کی خدمت میں پیش کر دیئے  ہیں اور کوئی بات مخفی نہ رکھی ہے۔ آپ قران و سنت کی روشنی میں فرمائیں:

۱۔ کیا میری بھابھی کو طلاق شرعاً واقع ہوگئی ہے جبکہ وہ اس طلاق کو تسلیم نہیں کرتی؟

۲۔ کیا وہ طلاق ہونے کی صورت  میں شرعااً س گھر میں رہ کر بچوں کی پرورش کر سکتی ہے یا نہیں؟

۳۔ **** شرعا، قانونا بچوں کی کفالت کا ذمہ دار ہے،لیکن وہ جو کماتا ہے اپنی ذات پر خرچ کر لیتا ہے ۔ بچوں کے ننہال نہ بچوں کے اخراجات کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی اس پر راضی ہیں۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں الگ سے خرچہ تو نہیں دے سکتا البتہ میرے بچوں کے  رہ کر گذارا کر سکتے ہیں۔

۴۔ عرصہ پونے چار ماہ سے **** گھر میں نہ ہے۔ کیا *** اپنی بیوی کی موجووگی میں گھر میں آسکتا ہے؟

آپ کی شریعت محمدی کے مطابق بر وقت اور صحیح رہنمائی سے میرے اور میرے اہل خانہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی  کسی بھی نافرمانی سے بچ سکتے ہیں۔ لہذا راہنمائی فرمائی جاوے۔

بحوالہ مسئلہ مورخہ 2012۔ 1 ۔ 23 کیا **** کی بیوی کو طلاق شرعاواقع ہوگئی ہے؟

آپ کے پاس برائے فتویٰ  موجود ہے تاہم مذکورہ  مسئلہ کی فوٹو کاپی لف ہے۔ اس ضمن میں دارالافتاء سے مورخہ 12۔ 1 ۔ 25  کو چند سوالات پوچھے گئے ان کا جواب حسب ذیل ہے۔

۱۔ جن ڈاکٹرصاحبان نے شروع میں علاج کیا انہوں نے اپنی تشخیص تو نسخہ پر نہ لکھی ہے البتہ زبانی طور پر بتلایا کہ **** ذہنی مریض ہے۔ لہذا ان ڈاکٹروں کے لکھے گئے نسخہ جات کی پہلی اور آخری کاپی کی نقل لف ہے۔

۲۔ ڈاکٹر طاہر پرویز نے آخر  میں علاج کیا اور مرضی بھی تشخیص کی مریض کی ہسٹری بھی نسخہ پر درج ہے۔ لہذا ن کے تمام نسخہ جات کی فوٹو کاپیاں لف ہیں۔ اور اہم پوائنٹ کو نمایاں کیا گیا ہے۔

نوٹ اس بیماری کے دوران اس کا منہ لقوے والے مریض کی طرح ٹیڑھا ہوگیا ہے۔

۳۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق **** غیر مستقل مزاج کا مالک ہے اور غیر ذمہ دار ۔ اس پر جنونی کیفیت دو وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔

الف: گھریا گھر سے باہر کسی بھی شخص کی اس کی طبیعت سے غیر موافق بات ۔

ب: میاں بیوی کی آپس میں نونک چھونک۔

جنونی کیفیت کے دوران اس نے بیوی کو زبانی، تحریری طلاق دی، کیونکہ عبدالروف بیوی کو مارپیٹ کرتا ہے اور گھر والے اس کو چھڑاتے ہیں۔ لہذا یہ تمام گھروالوں کو اس (بیوی ) کا فریق سمجھتا ہے۔ عام حالات میں جبکہ وہ غصہ وغیرہ میں نہیں ہوتاتو گھر والوں یا باہر والوں کو کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جبکہ دوسری طرف وہ بیوی سے ازدواجی تعلقات بھی قائم رکھتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو طلاق جنون کی کیفیت میں دی ہو یا شوہر دعوی کرے کہ اس نے طلاق کے الفاظ جنون کی  کی کیفیت میں کہے تھے، جبکہ اسے جنون کا مرض بھی ہے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved