• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گردن کے مسح کی ترتیب

استفتاء

محترم المقام مفتی صاحب! وضو میں گردن کے مسح کی بابت راجح قول استحباب کا ہے، البتہ اس کے بارے میں یہ بات وضاحت طلب ہے کہ اس مسح کی کیفیت اور ترتیب کیا ہو؟ اس بارے میں کتب فقہ میں تو ترتیب یہی ہے کہ پہلے سر کا مسح کرے، پھر کانوں کا اور پھر آخر میں ہاتھوں کی تر پشت سے گردن کا مسح کیا جائے۔ جبکہ اس کے برعکس علامہ عبد الحي لکھنوی صاحب رحمہ اللہ نے "سعایہ” میں اس طریقہ کو خلاف ماثور قرار دیتے ہوئے، اس بات کو ترجیح دی ہے کہ گردن کا مسح سر کے ساتھ ہی ہونا چاہیے، یعنی جب سر کے مسح کے لیے ہاتھ پھیرنا شروع کیا، تو آخر پر پہنچ کر ساتھ ہی گردن پر بھی ہاتھ پھیر لیا جائے۔ سعایہ میں گردن کے مسح کی احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

فهذه أحاديث قولية و فعلية قد دلت علی أن لمسح الرقبة أصلاً، فلا معنی لنفيه …. ثم الثابت من الأخبار المذكورة أنه صلی الله عليه و سلم مسح قفاه مع رأسه و جرّ يديه إلی القفا و أخرجها من أسفل عنقه. و أما ما ذكره أصحابنا منهم صاحب النهاية و غيره في كيفيته أنه يمسح الرقبة بعد مسح الرأس و الأذنين بظهور الأصابع الثلاث فلم أجد له أصلاً. و لذا تركته بعد ما كنت أعمله و أخذت بما ثبت في الأحاديث. (سعاية: 1/ 178)

جبکہ اس کے بر عکس حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے امداد الفتاوی میں یہ صراحت فرمائی ہے:

"سوال: جب مسح کرتے وقت سر پر ہاتھ پھیرا جاتا ہے، ہاتھ کو گردن کی طرف لے جاتے وقت بھی گردن کا مسح کر لیا جائے، یعنی ماتھے پر ہاتھ رکھ کر جو گردن کی طرف  کھینچا تمام سر پر پھرا کر کے ساتھ ہی گردن پر اسی وقت پھیر لیا جائے، جیسا کہ ابو داؤد کی حدیث "مما إلی القفا” کا مفہوم معلوم ہوتا ہے، اسی طرح مسح کرنا بہتر ہے، یا ہاتھوں کی پشت سے گردن کا مسح کرنا مستحب ہے؟ حدیث مذکور کا مفہوم و مطلب صحیح کیا ہے؟

جواب: اس سے مستحب ادا نہ ہو گا۔ ایک تو ترتیب نہ رہی، دوسرے ظہر ید سے نہ ہوا،  اور "بظهر يديه” کی قید کتب فقہ در مختار وغیرہ میں مصرح ہے، اور حدیث کا مطلب ظاہر ہے کہ اس میں قفا آیا ہے، جو کہ راس کا جزو ہے، اور رقبہ اس سے خارج ہے۔ پس اس کو مسح رقبہ سے کچھ مس نہیں، اور اگر اس کا عموم فرض کر لیا جائے تو  "بلوغ قذال يا مد إلی القفا بمعنی الرقبة” سے یہ لازم نہیں آیا کہ یہ قصداً تھا، بلکہ استیعاب راس میں اس کا مسح بھی ہو گیا، اور اگر مسح کو قصداً مان لیا جائے تو ممکن ہے کہ بیان جواز پر محمول کر لیا جائے، اس سے مستحب کا ادا ہو جانا لازم نہیں آتا۔” (1/ 13)

ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات راجح ہے اور اصل مذہب ہے۔ بینوا توجروا

نوٹ: مسح رقبہ سے متعلق احادیث السعایہ سے اور رقبہ کی تعیین کی بابت بحث اعلاء السنن سے ساتھ منسلک ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے قول کو ترجیح معلوم ہوتی ہے۔ وجوہ ترجیح یہ ہیں:

1۔ زیادہ تر روایتوں میں قفا یا قزال تک مسح کرنے کا ذکر ہے۔ اگر گردن کا مسح بھی سر کے مسح کے ساتھ ہو تو ان بہت سی روایتوں کے مطابق گردن کا مسح تو کیا ہی نہیں۔ مسح رقبہ کا اثبات کرنے والوں کے لیے یہ بات ان کے خلاف جاتی ہے۔

2۔ مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے ظہر ید سے بھی استدلال کیا ہے، جس کی قید فقہاء نے لگائی ہے۔

3۔ "إلی أسفل عنقه” کی جو قید بعض اکا دکا روایتوں میں ہے، اس میں تاویل ممکن ہے يعني قريباً من أسفل العنق. فقط و اللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved