• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"لکھو” کہنے پر تین طلاق لکھ دیں

استفتاء

میرا نام***ہے۔ میں شادی شدہ ہوں میرا بیوی کے ساتھ تھوڑا جھگڑا ہوگیا۔ جھگڑا اس طرح سےہوا میں دل کا مریض ہوں مجھے ہسپتال سے دوا فری ملتی ہے۔ میں بڑی عید کے چار دن بعد ہسپتال دوا لینے گیا تھا۔ جب ہسپتال گیا ، وہاں بہت رش تھا کیونکہ عید کی چھٹیاں تھیں۔ اس لیے میں نے گھر فون کیا 12 بجے کہ رش بہت ہے میں لیٹ ہوجاؤں گا۔ پھر میں نے دوا لی تین بج گئے۔ پھر میں دوا لے کر اپنے ایک دوست کے ہاں آیا میں نے وہاں دوست کے پاس شراب پی لی کافی نشے میں ہوگیا، 2 گھنٹے بیٹھا رہا۔ بیوی پریشان تھی کہ ابھی تک نہیں گھر آیا۔

پھر میری بیوی نے مجھے فون کیا میں نے اپنے دوست کے بچوں کے پاس بیٹھا تھا میری بیوی نے جب فون  سےبچوں کی لڑکیوں کی آوازسن لی تو وہ لال پی لی ہوگئی۔ میں نے کہا تم بات کر لو۔ اس نے میری بات نہیں سنی فون کاٹ دیا، وہ سارے گھر والے بڑے پریشان ہوئے۔ میں پھر وہاں سے نکلا بڑے غصے میں نشے کی حالت میں تھا۔

گھر پہنچا تو اسے پوچھا تو نے فون کیوں بند کیا، کہنے لگی وہ کون سے ۔۔۔۔تمہارے  ۔۔۔۔ میں نے کہا وہ میرے دوست میرے  بھائی کے بچے بچیاں ہیں کوئی  بری بات نہیں ان میں بیٹھنا ۔ وہ  کہتی ہے کہ تم نے مجھے فون پر کہا تھا ” میں تمہیں فیصلہ دے دوں گا” پھر اس نے اپنے بہنوئی کو بلایا یعنی اپنی بہن کے بندے کو اس نے مجھے دھکے دیے اور مجھے کاپی پکڑا دی ساتھ پن، کہنے لگا لو اور پھر لکھو۔ میں نے تین دفعہ ” طلاق، طلاق، طلاق " لکھ دیا میرے آٹھ ہزار روپے تھے وہ بھی مجھے دیے کہنے لگے یہاں پیسے بھی لکھو۔ میں نے وہ بھی لکھ دیے۔ میں نے کوئی سائن وغیرہ نہیں کیے جب دوسرے دن پیسے گنےتو چھ ہزار پانچ سو تھے۔ میں تو نشے میں تھا میں نے پیر کے دن اپنے سالے کو بتایا پیسے کم تھے وہ  کہتا بھی نہیں۔ پیسہ یہ سب کچھ نشے کے آلم میں ہوا۔ اب میری بیوی خود صلح کرنا چاہتی  ہیں، میں بھی چاہتا ہوں کیونکہ ہمارا ایک بچہ ہے 10 سال کا وہ باپ بنا منٹل ہو سکتا ہے۔

وضاحت: شراب مرضی سے پی تھی۔ایک سادے کاغذ پر بیوی کے نام وغیرہ کے بغیر یہ لفظ لکھے ” طلاق ، طلاق، طلاق” کاغذ بعد میں پھاڑ دیا گیا۔ ( بعد میں بیوی کے رشتہ داروں نے اس کی کاپی مہیا کردی جو کہ ساتھ لف ہے )

چونکہ وہ آدمی تھے اس لیے مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ مجھے ماریں نہ، اس لیے میں نے سوچا کہ جلدی سے ویسے ہی جھوٹ لکھ کر یہاں سے نکلوں۔ اسی لیے میں نے دستخط بھی نہ کیے۔ مذکورہ الفاظ صرف لکھے تھے، زبان سے کچھ نہ کہا تھا۔ پیسوں سے مراد باہر سے آئی ہوئی رقم  ہے۔ یہ میرا حلفیہ بیان ہے۔قرآن اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔

سائل نے فون پر وضاحت کی : بہنوئی نے آنے کے بعد مجھے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ لکھو یہ نہیں کہا تھا کہ طلاق لکھو۔ اور نہ ہی بیوی نے کہا تھا کہ طلاق لکھو۔ ان لوگوں کا لکھوانے سے اصل مقصد باہر ملک سے آئی ہوئی رقم  کی وصولی تھا کہ میں لکھوں کہ  میں نے وہ رقم وصول کرلی ہے۔

تحریر: طلاق طلاق طلاق۔ آٹھ ہزار روپیہ دے دیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر شوہر یہ سمجھتاتھا کہ ” لکھو " کہنے سے ان لوگوں کی مراد طلاق لکھوانے کی تھی ۔ اگر چہ انہوں نے زبان سے طلاق لکھو نہیں کہا تھا، تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ یہ تحریری طلاق ہے جو زبردستی لکھوائی گئی ہے اس لیے نافذ نہ ہوگی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved