استفتاء
ایک عورت کو یکم جنوری سے 15 دن تک خون آیا۔ پہلے عادت آٹھ دن کی ہے، اور مہینے کے ابتدائی دنوں کی ہے، پھر 25 تاریخ کو داغ لگنا شروع ہوا، اور 30 کی رات کو ختم ہو گیا۔ پھر دو فروری کو خون آیا جو کہ بالکل ایام کی طرح تھا، اور یہ خون 8 تاریخ کو ختم ہو گیا۔ اس دوران نمازوں کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ دو خونوں کے درمیان مکمل 15 دن کا وقفہ نہیں ہے۔ اس لیے یہی سمجھا جائے گا کہ یہ خون مسلسل آ رہا ہے۔ اور ایسی صورت میں حیض اور طہر دونوں میں سابقہ عادت کا اعتبار ہوتا ہے۔ اور سوال میں ذکر کردہ عورت کی عادت یہ ہے کہ اسے 8 دن حیض آتا ہے اور 22 دن پاک رہتی ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں یکم جنوری سے 15 جنوری تک جو خون آیا ہے، اس میں پہلے آٹھ دن ماہواری کے شمار ہوں گے اور اس کے بعد باقی 22 ایام پاکی کے شمار ہوں گے۔ ان باقی ایام میں سے جن ایام میں نماز نہیں پڑھی، اتنے ایام کی نمازیں پڑھنی پڑیں گی۔ 22 ایام گذرنے کے بعد 8 دن حیض شمار ہو گا۔ البتہ نوواں دن حیض شمار ہو گا یا استحاضہ (یعنی بیماری)؟ یہ فی الحال موقوف ہے۔اگر تو آئئدہ 15 دن مکمل خون بند رہا تو یہ بھی حیض میں شمار ہو گا، ورنہ بیماری شمار ہو گا۔
(و الطهر الصحيح) في الظاهر و المعنی (ما) أي نقاء (لا يكون أقل من خمسة عشر يوماً) بأن يكون خمسة عشر فأكثر، لأن ما دون ذلك طهر فاسد يجعل كالدم المتوالي (لا يشوبه) أي يخالطه (دم) أصلاً لا في أوله و لا في آخره و لا في وسطه. (منهل الواردين: 16)
إذا زاد علی العادة حتی جاوز العشرة فإنها ترد علی عادتها، و يكون ما رأته في أيام عادتها دماً صحيحاً، كأنه لم يزد علی العشرة و يكون الزائد علی العادة استحاضة. (رد المحتار: )
(دم الاستحاضة) حكمه (كرعاف دائم) وقتاً كاملاً (لا يمنع صوماً و صلاةً) و لو (جماعاً). (الدر المختار: 1/ 544)
أما الاستحاضة فحدث أصغر، كالرعاف. (بركوي: 103) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved