• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پیشاب کے قطروں کے مسئلے کا حل

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے پیشاب کے قطرے گرنے کا شک ہوتا رہتا تھا، اور یہ قطرے پانی سے استنجاء کرنے کے بعد زیادہ آتے ہیں، بنسبت ڈھیلے کے۔ میں نے ایک طریقہ اختیار کیا ہے، ایک معتبر آدمی کے کہنے سے وہ یہ کہ ٹشو کی تہ لگا کر حشفہ پر ربڑ کے ذریعہ سے چڑھا لیتا ہوں۔

1۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ  ٹشو چڑھے ہوئے ہونے کی حالت میں نماز ہو جاتی ہے؟ جبکہ پیشاب نکلنے کا یقین ہوتا ہے۔

2۔ اور کبھی ٹشو اتار کر خشک ہونے کی حالت میں نماز پڑھ لیتا ہوں؟

3۔ اور کبھی ٹشو اتار کر تین دفعہ ڈھیلہ یا ٹشو سے استنجاء کر کے نماز پڑھ لیتا ہوں۔

جواب طلب امر یہ ہے کہ ان تینوں صورتوں میں کونسی صورت والا استنجاء ٹھیک ہے؟ اور جس صورت والا استنجاء ٹھیک نہیں، اس میں پڑھی پڑھائی نمازوں کا کیا کرنا ہو گا؟ یا اور کوئی وضاحت ہو تو رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عام طور سے پیشاب کے بعد قطروں کے آنے کے مسئلہ کا تعلق کسی مرض یا بیماری سے نہیں ہوتا۔ بلکہ آدمی کی قوت وہمیہ سے ہوتا ہے جب تک آدمی اپنے دماغ پر یہ سوار کیے رہتا ہے کہ مجھے قطرہ آتا ہے یا آرہا ہے تو بعض اوقات اسے قطرہ آبھی جاتا ہے اور اگر ادھر سے بالکل توجہ ہٹا لے تو پھر قطرہ بھی نہیں آتا، اسی وجہ سے عموماً قطرہ اس وقت بالکل نہیں آتا، جس وقت دھیان اور توجہ دوسرے کاموں میں ہو۔

لہذا جو صورتیں آپ نے قطروں کے سد باب کے لیے اختیار کی ہوئی ہیں وہ سب تکلف سے خالی نہیں، اس لیے آپ صرف اتنا کریں کہ پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد ایک دو دفعہ پیشاب کی نالی کو، خصیتین کے نیچے سے دبا کر سونت لیں، تاکہ پیشاب کی نالی میں کوئی قطرہ رہ گیا ہو تو وہ نکل جائے، اس کے بعد پانی سے استنجا کر لیں اور قطرے نکلنے کی طرف بالکل توجہ نہ کریں، بلکہ قطرہ نکلنے کا خیال زور بھی پکڑے تو پھر بھی اس پر عمل نہ کریں، کم از کم دو تین مہینے اس پر عمل کریں انشاء اللہ یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔

موطأ إمام محمد (1/98):

أخبرنا مالك أخبرنا الصلت بن زبيد أنه سأل سليمان بن يسار عن بلل يجده، فقال: انضح ما تحت ثوبك واله عنه.

(ترجمہ: صلت بن زبید رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سلیمان بن یسار رحمہ اللہ سے پوچھا اس تری کے بارے میں جسے وہ محسوس کرتے ہیں تو حضرت سلیمان بن یسار رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اپنے کپڑے کے ماتحت (شرمگاہ) کو پانی سے دھو لو اور پھر اس سے غافل ہو جاو، یعنی اپنی توجہ ہٹا لو)۔

مصنف عبد الرزاق: (1/151)

عن عبد الرزاق عن عبد الملك بن أبي سليمان قال سمعت سعيد بن جبير قال وسأله رجل فقال إني ألقی من البول شدة إذا كبرت و دخلت في الصلاة و جدته فقال سعيد أطعني افعل ما أمرك خمسة عشر يوماً توضأ ثم ادخل في صلاتك فلا تنصرفن.

(ترجمہ: عبد الملک بن ابی سلیمان سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا جب ان سے ایک آدمی نے پوچھا کہ جب میں نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہتا ہوں تو مجھے پیشاب کا زور محسوس ہوتا ہے، اور (جب) میں نماز شروع کرتا ہوں، تو میں قطروں کو محسوس کرتا ہوں، تو حضرت سعید رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تو میرا کہا مان، جو میں تجھے کہوں ، اس پر پندرہ دن تک عمل کر، وضو کر لے اور نماز پڑھنی شروع کر دے، اور نماز سے ہرگز نہ پھرنا [یعنی خواہ کتنا ہی خیال قطرہ نکلنے کا آئے، لیکن اس کے باوجود نماز نہ توڑنا] ۔

احسن الفتاویٰ (2/107) میں ہے:

’’ملفوظ حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ:

حضرت خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ مجھے استنجاء میں بڑے وسوسے آتے ہیں، بہت دیر بمشکل تمام خشک ہوتا ہے، ملنے سے کچھ نہ کچھ نکلتا ہی رہتا ہے۔ فرمایا ایسا ہرگز نہ کیجیے، معمولی طور سے استنجاء کر کے دھو لینا چاہیے۔ عوارف المعارف میں لکھا ہے کہ اس کا حال تھن کا سا ہے کہ جب تک ملتے رہیں کچھ نہ کچھ نکلتا رہتا ہے، اور اگر یوں ہی چھوڑ دیں تو کچھ بھی نہیں۔ حضرت خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ بعد کو قطرہ نکل آتا ہے۔ فرمایا کہ کچھ خیال نہ کیجیے، چاہے بعد کو نمازوں کا اعادہ کر لیجیے گا لیکن جب تک بتکلف جبر کر کے وسوسہ کے خلاف نہ کیجیے گا، یہ مرض نہ جائے گا، اس وجہ سے آپ بڑی تکلیف میں ہیں۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ رطوبت کی وجہ سے ایک وقت کے وضو میں دوسرے وقت کے وضو کے لیے شک پڑ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے رومال بھی دھونا پڑتا ہے۔ فرمایا کہ نہ وضو کیجیے، نہ رومال دھویا کیجیے۔ چند روز بتکلف بے التفاتی کرنے سے وسوسے جاتے رہیں گے۔‘‘ (ملفوظ کمالات اشرفیہ: 198، ملفوظ: 807) ……..

نوٹ1: جو بات اوپر تفصیل کے ساتھ پیشاب کے قطروں کے بارے میں ذکر ہوئی، وہی تفصیل ریح (ہوا) کے بارے میں ہے۔ یعنی عموماً ریح کا مرض آدمی کو نہیں ہوتا بلکہ وہم ہوتا ہے جس کی عام پہچان یہ ہے کہ اگر ریح کا نکلنا نماز کے علاوہ اوقات میں بھی اسی طرح ہو جس طرح کہ نماز کے وقت محسوس ہوتا ہے تو یہ مرض ہے ورنہ وہم ہے۔ اور وہم کا علاج یہی ہے کہ آدمی اپنی توجہ ادھر سے ہٹالے۔

نوٹ 2: اسی طرح نماز کے وقت پیچھے کی راہ سے کچھ رطوبت کے نکلنے کا خیال ہو تو ادھر بھی توجہ نہ دے۔ اور اگر نظر پڑ ہی جائے تو اسے اقرب الاوقات یعنی جس وقت دیکھا ہے اسی وقت کی طرف منسوب کرے ”لان الحادث يضاف إلى أقرب الأوقات“ اور اس وقت سے پہلے پڑھی ہوئی نماز کا اعادہ نہ کرے۔ پھر یہ نجاست اگر مقدار عفو کے برابر ہو تو دھون کی بھی ضرورت نہیں۔ ورنہ دھونا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و الله تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved