• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے مختلف الفاظ کا حکم

استفتاء

میرا نام شیخ **** **** **** ہے۔ میری شادی اکتوبر 2010 میں سندس **** سے ہوئی جس سے میرا ایک بیٹا **** **** جس کی عمر صرف گیارہ ماہ ہے۔ میں نے اپنی زوجہ کو اپنی بساط کے مطابق ہر آسائش دی جس میں مہنگے اور جدید موبائل فون، قیمتی جیولری،  ۔۔۔ سارا پیار دیا۔ میں نے گھریلو اور اسلامی تقریب میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کے ساتھ دیا۔ میں لاہور ایئر پورٹ پر ملازمت کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ میں نے اس لیے کہا کیونکہ مجھے اپنی بیوی پر اندھا اعتماد اور پیار تھا۔ جدید اور انٹرنیٹ سروس والے موبائل فون کا میری بیوی نے غلط استعمال کیا اور بذریعہ انٹرنیٹ ایک غیر مرد سے بات چیت کی حد تک روابط رکھے۔ کچھ دن پہلے یہ راز مجھ پر افشاں ہوگیا میں بہت رویا دھویا شور مچایا اور اپنے ساس سسر کو بلا کر اپنی بیوی کو ان کے ساتھ اس کے ماں کے گھر بھیج دیا اور آٹھ دن تک میں اس سوچ میں مبتلا رہا کہ آخر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا میں نے آخر کہاں کمی چھوڑی تھی۔ آٹھ دن بعد میری بیوی کے ماموں اس کو واپس ہمارے گھر چھوڑ گئے۔ جس کو میں نے اپنی اور بچے کی محبت کی خاطر قبول کر لیا۔ اتنی بڑی بات ہونے کے باوجود میں نے اپنی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ خیر وہ واپس آگئی اور ساتھ رہنے لگی۔ میرا ارادہ بھی درگزر اور معاف کرنے کا تھا اور میری بیوی نے بھی مجھ سے اسی روز معافی مانگی۔ میرا رویہ کبھی صحیح اور زیادہ تر غلط رہا کیونکہ مرد ہونے کے ناطے میرے ذہن میں جو ایک شک کی کیل گڑھ گئی تھی میں وہ سوالات کرکے زندگی سدھارنا چاہتا تھا۔ لیکن میری بیوی میں ضد زیادہ اور  برداشت و تحمل کی کمی تھی وہ برداشت نہ کر پائی۔ اور ایک دن اس نے اپنے گھر والوں جن میں والدہ، ماموں اور نانا شامل تھے ان کو بلا لیا اور یہ رٹ لگائی کہ میں نے اب یا فی الحال یہاں نہیں رہنا۔ مفتی صاحب غور طلب بات یہ ہے کہ میں اپنی بیوی کو منع کرتا رہا کہ ایسا نہ کرو۔ جناب عالی میں درد شقیقہ کا مریض ہوں اور ادویات استعمال کرتا ہوں۔ لیکن جب آدھے سر کا درد شروع ہوجاتا ہے تو مجھے نس میں ایک انجکشن لگوانا پڑتا ہے۔ جو مجھے کافی حد تک آرام دیتا ہے۔ لیکن اس وقت پریشانی اور درد کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ مجھے ایک کے بجائے دو انجکشن لگوانے پڑے جس سے غنودگی کافی حد تک بڑھ گئی اور نشے کی سی کیفیت ہوگئی تھی۔ ایک بات اور گوش گذار کروں کہ میں نشئ نہیں ہوں اور بہت چھوٹی عمر سے یتیم بھی ہوں اور اپنی ہر ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مختصر یہ کہ جب میرے سسرال والے آئے تو انہوں نے بہت اونچی آواز میں بات کی اور اشتعال انگیز باتیں کیں۔ جس پر میں نے بھی اونچی آواز میں بات کی۔ اور دھمکی آمیز باتیں کیں جس سے میں مزید اشتعال میں آگیا۔

میرے بہنوئی چھوٹا بھائی، اور بھابھی مجھے پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے گئے۔ جہاں پر میں نے طلاق کے لفظ پانچ مرتبہ استعمال کیے ہیں جو اس طرح ہیں: ۱)۔ میں اس کو طلاق دے دوں گا۔ ۲)۔ جب دوسری مرتبہ میں نے یہ کہنا چاہا کہ میں طلاق دے رہا ہوں تو میرے بہنوئی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور طلاق کا لفظ ادا تو نہیں ہوا لیکن دے رہا ہوں ادا ہوگیا۔ ۳)۔ ایک مرتبہ یہ جملہ مکمل کیا کہ میں نے طلاق دی۔ چوتھی اور پانچویں مرتبہ میں نے کیا الفاظ ادا کیے یا کہے بھی یا نہیں کہے مجھے یاد نہیں اور وہاں پر موجود لوگوں کو بھی شور شرابے کی وجہ سے کچھ خاص اور حق الیقین کی وجہ سے وہ الفاظ یاد نہیں کوئی بھی موجود لوگوں میں سے سب لوگ شبہ اور شاید کی کیفیت میں ہی ہیں اور یقین سےکوئی بات نہیں کہہ پا رہے۔ البتہ بھائی کا بیان یہ ہے کہ یہ الفاظ کہ میں نے طلاق دی ایک دفعہ اور کہے۔

جناب والا آخر میں عرض ہے کہ الحمد للہ میں مسلمان ہوں اور اپنا ایمان خراب نہیں کرنا چاہتا۔ جو کچھ عرض کیا کوشش کی ہے کہ حتی الامکان صحیح معاملہ گوش گذار کروں۔ میری سسرال والوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ طلاق کی بھی کوئی بات ہوئی ہے یا نہیں؟ کیونکہ دریں اثناء وہ لوگ چلے گئے تھے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سائل نے طلاق کے بارے میں کل پانچ دفعہ الفاظ کہے ہیں۔ پہلی اور دوسری دفعہ کے الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ تیسری دفعہ کے الفاظ سے ایک رجعی طلاق واقع ہوئی۔ چوتھی اور پانچویں مرتبہ کے الفاظ کے بارے میں اگرچہ بھائی کا یہ بیان ہے کہ سائل نے یہ الفاظ کہ میں نے طلاق دی ایک مرتبہ اور کہے ہیں لیکن ایک تو موقعہ پر موجود دیگر لوگوں کو اس کا کچھ علم نہیں اور دوسرے خود سائل ان الفاظ کے کہنے کے وقت غصہ کی اس حد کو پہنچ گیا تھا کہ اسے خود کچھ علم نہیں کہ اس نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا۔ اس لیے ان سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

لہذا مذکورہ صورت میں صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے اور عدت کے اندر اندر میاں بیوی رجوع کرکے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved