• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تم اب میرے لیے حرام ہو

استفتاء

میرا نام***ہے۔ میری دوسری شادی پچھلے سال 8 جون 2012ء کو **** **** سے ہوئی۔ چار مہینے اچھے گذرے۔ پھر انہوں نے بچوں کو جو میں ان کی اجازت سے ساتھ لے کر گئی۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی، انہیں قبول کرنا چھوڑ دیا۔ نوبت ناراضگی تک گئی کہ یا بچے پہلے باپ کو دے دو یا اپنے ماں باپ کو۔ میرا سسرال **** میں ہے۔ میں بچوں کے ساتھ لاہور آگئی۔ انہوں نے فون کیا کہ آکے آپنا سامان لے جاؤ۔ میں  تمہیں پیپرز بھجوا رہا ہوں۔ میں اپنے ماموں کے ساتھ **** گئی بچوں کو نہ لیا۔ انہوں نے مجھے ایک طلاق دی ( یعنی یہ کہا کہ ’’ میں تمہیں طلاق دیتاہوں ‘‘)۔ اور یہ بات سات ماہ پہلے کی ہے۔ میں وہیں ایک ہفتہ رہی۔ پھر صلح ہوگئی۔ میں واپس لاہور آگئی۔ 2 اپریل کو میرے بھائی مجھے، میرے بہنوئی اور خالہ کو لے کر ان کے گھر فیصلہ کروانے کے لیے گئے۔ اس سے پہلے جتنی دیر میں لاہور میں رہی میرے خاوند کے فون آتے رہے اور ایک دفعہ مجھے لینے بھی آئے بچوں کے بغیر۔ لیکن میں نے انکار کر دیا کہ بچوں کو کس کے پاس چھوڑوں۔ میں نہیں گئی۔ 2 اپریل 2013ء کو ہم **** گئے میرے خاوند نے کہا میں اسے رکھنا بھی نہیں چاہتا اور کسی صورت چھوڑنا بھی نہیں چاہتا۔ میرے بڑے بھائی، بہنوئی اور خالہ کے انتہائی مجبور کرنے پر کہ اسے نہیں رکھنا، حقوق پورے نہیں کرنے۔ تو انہوں نے کہا، نہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ اسے ایک لفظ ( طلاق) کا پہلے بولا ہے۔ اب دو لفظ بولو اور معاملہ ختم کردو۔ میرے خاوند نے انتہائی ٹال مٹول کرتے رہے کہ میں سوچ کے بتاؤں گا۔ لیکن سب بضد رہے کہ ابھی کہو، اس میں ان کے ابو، امی اور بھائی بھی شامل تھے۔

آخر کار انتہائی پریشر کے بعد میرے شوہر نے دو دفعہ یہ کہا کہ ’’ تم اب میرے لیے حرام ہو ‘‘اور یہ لفظ میرے بھائی نے کہا چلو طلاق نہ بولو یہ کہہ دو۔ مفتی صاحب اب وہ شخص **** **** بہت پچھتا رہے ہیں۔ رو رہے ہیں۔ میرا رو رو کر برا حال ہے۔ وہ اب بچوں سے بھی بہت پیار کرنے لگے ہیں۔ اور مجھ سے بات کرکے بہت رو رہے ہیں کہ شاید کوئی گنجائش نکل جائے واپسی کی۔ مفتی صاحب ۔۔۔۔ خدا کے لیے میرا مسئلہ حل کردیں۔ وہ شخص **** **** اپنے آپ کو اذیت دینے پر آگئے ہیں۔ اللہ کے واسطے میرا مسئلے کا حل بتادیں۔ میں واپس ان کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ میرا دل دماغ پھٹا جا رہا ہےجب میں ان کا رونا سنتی ہوں۔ جمعہ مبارک کے صدقے مجھے خوشخبری سنا دیں کہ کچھ گنجائش باقی ہے۔ میرے گھر میں کوئی مانے گا نہیں لیکن میں منا لوں گی۔ میں دوسری بار طلاق کا دھبہ اپنے ماتھے نہیں لگانا چاہتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر کے الفاظ کہ ’’ تم اب میرے لیے حرام ہو ‘‘سے ایک طلاق بائن ہوگئی۔ اب میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر پہلے بھی ایک طلاق دے چکا ہے اس لیے آئندہ شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا۔

توجیہ: ’’ تم اب میرے لیے حرام ہو ‘‘طلاق صریح بائن کے الفاظ ہیں جن سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن چونکہ یہ طلاق بائن ہے اور بائن بائن کو لاحق نہیں ہوتی لہذا دوسری دفعہ بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

أن لفظ حرام معناه عدم حل الوطء و دواعيه و ذلك يكون بالإيلاء مع بقاء العقد و هو غير متعارف و يكون بالطلاق الرافع للعقد و هو قسمان بائن و رجعي لكن الرجعي لا يحرم الوطء فتعين البائن و كونه التحق بالصريح للعرف لا ينافي وقوع البائن به فالصريح قد يقع به البائن لتطليقة شديدة و نحوه. ( شامى: 3/ 299)

و إذا طلقها تطليقة بائنة ثم قال لها في عدتها أنت علي حرام … و هو يريد به لم يقع عليها شيء لأنه صادق في قوله هي علي حرام و هي مني بائن. ( شامى: 3/ 308)

قال ح و لا يريد أنت علي حرام على المفتى به من عدم توقفه على النية مع أنه لا يلحق البائن، و لا يلحقه البائن لكونه بائناً لما أن عدم توقفه على النية أمر عرض له لا بحسب أصل وضعه. (شامى: 3/ 306) فقط و الله تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved