• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کنایات میں شوہر کی نیت کا اعتبار

استفتاء

میرے شوہر جھگڑالو قسم کی طبیعت کے مالک ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا گالی گلوچ مارپیٹ کرنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ میری مرضی اور مشورہ کو گھر کے معاملات میں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ مالی طور پر بھی میرے جائز حقوق کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ میرے ماں باپ کافی مالی اعانت کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم سے لے کر ان کی شادیوں تک انہوں نے کافی مالی اعانت کی ہے۔ مجھ پر الزام اور تہمت لگانا بھی ان کا معمول ہے۔ انہی جھگڑوں میں وہ کئی بار مجھے کہہ چکے ہیں ’’ جاؤ چلی جاؤ، میرے گھر سے چلی جاؤ وغیرہ وغیرہ‘‘ بلکہ ایک مرتبہ لکھ کر بھی دے چکے ہیں۔ میں نے ایک سال مدرسہ فاطمۃالزہراء میں پڑھا ہے۔ بہشتی زیور کا مطالعہ کیا تو کچھ حقائق میرے سامنے آئے تو میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسی باتیں نہ منہ سے نکالا کریں۔ لیکن یہ پھر بھی باز نہیں آئے پھر میں نے ان سے الگ رہنا شروع کردیا۔ ایک دن انہوں نے اپنے ٹاؤن کے مولوی صاحب سے بات کی تو انہوں نے فاطمہ مسجد کے مفتی *** صاحب کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ ان کے پاس ہم گئے تو ہمارے بیانات سننے کے بعد انہوں نے ہمیں طلاق بائن کا زبانی فیصلہ سنایا اور نکاح جدید کا مشورہ دیا۔ یہ 19 ستمبر 2012 کے دن کی بات ہے۔ اور انہوں نے ہمیں آئندہ کے لیے جھگڑوں سے اور ایسی بات کرنے سے باز رہنے کی تلقین بھی کی۔ لیکن میرے شوہر کو اپنی زبان پر قابو نہیں۔ وہ غصہ میں بہت آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے مہینے یعنی اکتوبر میں پھر یہ کہہ دیا کہ ‘‘جاؤ چلی جاؤ اپنے چوروں کے پاس’’  کیونکہ بہت شکی مزاج انسان ہیں، مجھے کسی نہ کسی کے ساتھ منسوب کرکے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کچھ دنوں کے بعد یہ کہا کہ ‘‘چلی جاؤ جیسے پہلے گئی تھی’’۔ اصل میں ایک دفعہ پہلے بھی ہماری علیحدگی ہوچکی ہے جس میں طلاق تو نہیں ہوئی تھی لیکن میں اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی تھی۔ یہ تقریباً بیس، پچیس سال پہلے کی بات ہے۔ اور اب جنوری 2013 کو یہ کہا کہ ‘‘جاؤ اس کے ساتھ گھر بسالو’’۔ ان کی ان باتوں سے مجھے بہت تذلیل محسوس ہوتی ہے اس لیے میں نے کہہ دیا ٹھیک میں تمہارے کہنے پر ہی ایسا کروں گی۔ تو انہوں نے کہا ہاں کرلو۔ ان کے نزدیک میری کوئی اہمیت نہیں ہے۔

مفتی صاحب ان تمام باتوں کی روشنی میں مجھے بتائیں کہ اب میری شرعی حیثیت کیا ہے۔ کیا یہ طلاق بائن ہی ہے؟یا بات اس سے آگے بڑھ چکی ہے یعنی کیا مجھے مکمل طلاق ہوچکی ہے؟ میں نے اس سلسلے میں جامعہ اشرفیہ اور ایک اور جگہ پتہ کیا تھا تو انہوں نے مجھے طلاق مغلظہ کا کہا تھا۔ اب آپ بھی مجھ اپنے مشورہ سے آگاہ کریں تاکہ میں اپنے گھر والوں کو بھی بتا سکوں۔ اس سلسلے میں جو شرعی احکامات ہوں گے میں ان پر عمل کروں گی۔

نوٹ: جو الفاظ لکھ کر دیے تھے وہ یہ ہیں ’’ میری طرف سے جانے کی اجازت ہے‘‘۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان میں سے بعض الفاظ کنایہ کی پہلی قسم کے ہیں اور بعض دوسری قسم کے ہیں۔ پہلی قسم میں ہر حال میں شوہر کی نیت ضروری ہے جبکہ دوسری قسم میں غصے کی حالت میں نیت کی ضرورت ہے اور مذاکرہ طلاق میں نہیں۔ مذکورہ حالات غصے ہی کی حالت کے ہیں اس لیے شوہر کی نیت پر موقوف ہوگا اور چونکہ شوہر کا مزاج اور معمول ہی گالم گلوچ اور غصے کا ہے اس لیے ان الفاظ کا سب و شتم کے لیے ہونا ہی غالب ہے یہ جواب دیانت کے اعتبار سے ہے۔ پھر بھی شوہر سے طلاق کی نیت کا پوچھا جائے۔ اگر وہ دعوی کرے کہ اس کی طلاق کی نیت نہیں تھی تو اس سے حلف لیا جائے یعنی قسم اٹھوائی جائے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved