• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

صلوٰۃ الرغائب کا طریقہ اور شرعی حیثیت

استفتاء

صلوٰہ الرغائب کا طریقہ کیا ہے؟ اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

صلوٰۃ الرغائب کا طریقہ:

امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “احیاء العلوم” میں  صلوٰۃ الرغائب کا مندرجہ ذیل طریقہ ذکر کیا ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بھی رجب کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھے پھر مغرب عشاء کے درمیان بارہ رکعات نماز دو دو کر کے پڑھے، اس طریقہ سے کہ ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھے اور سورہ اخلاص بارہ مرتبہ پڑھے پھر اس سے فارغ ہو تو مجھ پر ستر مرتبہ درود بھیجے اور درود یہ والا پڑھےاللهم صل علی محمد النبي الأمي و علی آله پھر سجدہ کرے اور سجدے میں سبوح قدوس و رب الملائكة و الروح ستر مرتبہ پڑھے، پھر سر اٹھائے اور “رب اغفر و ارحم و تجاوز عما تعلم إنك أنت الأعز الأكرم” ستر مرتبہ پڑھے، پھر دوسرا سجدہ کرے اور اس میں وہی پڑھے جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا، پھر اپنی حاجات کا اللہ سے سوال سجدوں میں کرے تو وہ پوری کر دی جائیں گی، جو شخص بھی یہ نماز پڑھے گا اللہ اس کے تمام گناہ معاف فرما دے گا، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں اور ریت کے ذرات کے برابر ہوں اور پہاڑوں کے وزن کے برابر ہوں اور درختوں کے پتوں کے برابر ہوں اور یہ شخص قیامت کے دن اپنے گھر والوں میں سے ایسے سو لوگوں کی سفارش کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی تھی۔ (احیاء العلوم)

صلوٰۃ الرغائب محدثین و فقہاء کی نظر میں:

صلوٰۃ الرغائب کے حوالہ سے محدثین اور فقہاء سے اس بات کی تصریح ملتی ہے کہ یہ نماز بدعت ہے اور جو روایات اس کا مستدل ہیں محدثین نے ان روایات کو ضعیف بلکہ موضوع قرار دیا ہے:

  • امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“صلوٰۃ الرغائب وہ بارہ رکعات نماز ہے جو کہ رجب کے مہینے کے پہلے جمعہ کی رات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے اور نصف شعبان کی رات کو دو رکعات پڑھی جاتی ہیں اور یہ دونوں نمازیں بدعت ہیں۔” (مجموع شرح المہذب)

  • نیز امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ “اللہ اس کے واضع اور مخترع کو ہلاک کرے، کیونکہ یہ بُری بدعات میں سے ایک بدعت ہے۔”

و احتج به العلماء علی كراهة الصلاة المبتدع التي تسمی الرغائب قاتل الله واضعها و مخترعها فإنها بدعة منكرة من البدع التي هي ضلالة و جهالة و فيها منكرات ظاهرة و قد صنف جماعة من الأئمة مصنفات نفيسة في تقبيحها و تضليل مصليها و مبتدعها و دلائل قبحها و بطلانها و تضلل فاعلها أكثر من أن تحصر و الله عليم. (شرح المسلم للنووي: 8/ 20)

  • عمدۃ القاری میں علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”اس نماز کی کوئی اصل نہیں ہے۔”

و منهم من يزعم أنه كان في أول جمعة من شهر رجب و هي ليلة الرغائب التي حديثت فيها الصلاة المشهور و لا أصل لها. (عمدة القاري: 6/ 115)

  • علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ “یہ نماز بدعت ہے”

مطلب في صلاة الرغائب قال في البحر: و من هنا يعلم كراهة الاجتماع علی صلاة الرغائب التي تفعل في رجب و في أول جمعة و إنها بدعة و ما يحتاله أهل الرو، من نذرها لتخرج عن النفل و الكراهة فباطل. اه قلت: و صرح بذلك في البزازية ما سيذكره الشارح آخر الباب، و قد بسط الكلام عليها شارحا المنية، و صرحا بأن ما روي فيها باطل موضوع، و بسطا الكلام فيها خصوصاً في الحلية و للعلامة نور الدين المقدسي فيها تصنيف حسن سماه “ردع الراغب عن صلاة الرغائب. (رد المحتار: 2/ 26)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved